Nasri Nazmain
فاتحہ اور تعزیت
سوئی چبھنے پر خون کا قطرہ نکلے یا 'سی ی ی' کی آواز چھری سے نس کٹے یا انگلی ہتھوڑے سے پاوں پر ضرب پڑے یا دماغ پر گرنے سے ہڈی ٹوٹے یا گھٹنا چھلے ڈنڈے کی مار سے سر پھٹے یا گوشت
ابنارمل معاشرہ
میں ایک ایسے دیس کا باشندہ ہوں جہاں سب نارمل ہے۔ بھرے مجمعے میں کسی انسان پر گولیاں چلانا۔
مصنوعی ذہانت کے دور میں ملنے والا پیام نامہ
آج جیسے ہی کام کی کرسی سنبھالی لیپ ٹاپ کی بتی جلائی کئی ونڈوز کھلتی گئیں ای میلز کی کھڑکی میں ایک نیا پیغام تھا
خاموش چیخیں
رندھے گلے والے بھرے گلے والے ،آنسووں کے ابھرتے، ڈولتے ،گلٹ' والے' ،گفتگو کے دوران حلق کے ابھار میں ضبط والے
ڈھکوسلہ
اسپتال کی لمبی راہداری کے ایک کمرے 'آپریشن تھیٹر' کے باہر میرا خاندان جمع ہے۔ پریشان، بے چین ،دعائیں کرتے
ایک اور مبارک- ایک اور مہمان
پونے تین سو گز کا ایک مکان مشترکہ خاندانی نظام کے تحت جس میں چھ خاندان آباد دو نسلیں والدین اور ان کے پانچ بیٹے
چٹپٹی خبریں
،آشنا کے ساتھ مل کر فرار ہونے والی ماووں، لڑکیوں، بیویوں، بہووں ،کی چسکے والی شہ سرخیاں، خبریں لگانے پھیلانے والے شائد بھلکڑ ہیں۔ اور یہ تذکرہ کرنا انھیں یاد نہیں رہتا۔
خالی پن
اب وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بھی پکڑیں تو لمس کی حرارت برف ہی رہتی ہے۔ نرم بوسہ بھی دیں تو لبوں کی گرمی تھکن نہیں چنتی۔
آو کچھ جھوٹی باتیں کریں
افق پر ڈوبتے نارنجی سورج کے سامنے لہروں کے خاموش، پرسکون اتار چڑھاو کے ساتھ پانی کے سبک بہاو کے درمیان ہوا کے دوش پر گھاس کی مدھم سرسراہٹوں کے بیچ دریا کے دوسرے کنارے پر
پردیسی کی بیوہ
میں نوجوانی کے سن میں داخل ہوئی خوشبو، مہندی، چوڑی، پائل، زیور، کپڑے، سجنا، سنورنا خود کے لئے بھانے لگا۔