فاتحہ اور تعزیت
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
24/10/2025
سوئی چبھنے پر خون کا قطرہ نکلے یا 'سی ی ی' کی آواز
چھری سے نس کٹے یا انگلی
ہتھوڑے سے پاوں پر ضرب پڑے یا دماغ پر
گرنے سے ہڈی ٹوٹے یا گھٹنا چھلے
ڈنڈے کی مار سے سر پھٹے یا گوشت
سڑک حادثے میں آنکھ جائے یا بازو
فضائی کریش میں بدن کا چورا بنے یا غیاب
ریل کے سامنے کوئی جان دے یا کچلا جائے
دریا کے پانیوں میں ڈوبنے سے زندگی جائے یا سانس
سب وجود رکھتا ہے۔
نظر آتا ہے۔
نشان رکھتا ہے۔
جس کے لئے
دوا بھی ہے
،دعا بھی
دارو بھی ہے
مرہم بھی۔
انجکشن بھی ہے
ڈرپ بھی۔
ٹکور بھی ہے
دبانا بھی۔
ہمدردی بھی ہے۔
آرام بھی۔
خیال بھی ہے
تسلی بھی۔
فاتحہ بھی ہے
مجلس بھی۔
تدفین بھی ہے
اور جنازہ بھی۔
:لیکن جو
نظروں کی تحقیر سے کچلا گیا یا زبان کے شعلوں سے
تعصب کی آنکھ سے ادھ موا ہو یا نظر انداز کرنے کی
اذیت سے
تلخ الفاظ سے گرا یا اکھڑے لہجوں سے
بیزاریت سے دور ہوا یا گالی سے مرا
سرد مہری سے ٹھنڈا ہوا یا پبلک ہیومیلیشن/عوامی تذلیل سے باغی
،وہ دل
،وہ گھاو
،وہ احساس
،وہ کاٹ
،وہ زخم
,نہ دکھائی دیتے ہیں
نہ ثبوت رکھتے ہیں۔
:اسی لئے انھیں
نہ معافی کی دوا ملتی ہے
نہ شرمندگی کا مرہم۔
نہ نرمی کی حرارت
نہ عزت کا لمس۔
نہ معذرت کے پھاہے
نہ ندامت کے آنسو۔
نہ جنازے کے لئے چار کندھے
نہ دفن کرنے کو ہاتھ۔