Blogs
آموں کے بغیر ملتان
وہ چار دن بعد کام پر آیا تھا۔ پہلے دو دن موبائل بند رہا۔ تیسرے دن بات ہوئی تو بہت بجھا بجھا لگا۔ اتنا کہ آگے سے یہ بھی نہیں کہا جا سکا کہ پودے، گھاس، درخت سب پانی اور صفائی کو ترس رہے ہیں۔ بھاگ بھاگ کر کچھ کوشش تو کر رہی ہوں۔ لیکن باقی ذمہ داریوں کے ساتھ اتنے بڑے حصے کو پانی دینا بھی بمشکل ہو پاتا ہے۔ شدید گرمی صرف ایک دن کے لئے بھی غیر حاضر ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ خیر اگلے دن شام میں آیا تو باغیچے میں اس سے ملاقات ہوئی۔ آواز سے بھی زیادہ پریشان۔ مایوس، زبردستی بولنے پر خود کو آمادہ کرتا ہوا۔ کیا ہوا؟ گھر میں کوئی مسئلہ ہے؟ نہیں۔ تو پھر کہاں غائب تھے؟ پودوں کی حالت دیکھو اور اپنی بھی۔
عائشہ خان: مُردوں کو کچھ نہیں چاہیے
منجھی اور خود میں ایک ادارہ، عائشہ خان اس جہان سے رخصت ہو گئیں۔ فنی دنیا کا ایک اور نقصان۔ پہلے پہل یہ خبریں آئیں۔ کبھی سوشل میڈیا پر، سبھی ٹی وی چینلز پر پھر یہ تفصیلات کہ کس حالت میں مردہ پائی گئیں؟ کیسے معلوم ہوا؟ کتنے دن بعد پتہ چلا؟ کیسی بے خبری، کسمپرسی اور تنہائی میں وقت نزع آیا اور ان کی روح قبض کر کے لے گیا؟ کس کو سب سے پہلے خبر ہوئی؟ کس نے اطلاع دی؟ جیسے جیسے واقعات سامنے آتے گئے۔ ویسے ویسے سبھی میزبانوں، اداکاروں، اداروں، آشناؤں، مصنفین اور ہمدردوں کو ان سے اپنا تعلق یاد آنے لگا۔ وہ کیسی قدآور فن کارہ تھیں۔ کس کے ساتھ کیا کام کیا؟ کیسا تعلق تھا؟ بیان ہونے لگا۔ پولیس نے آ کر کیا کیا؟ تدفین ہوئی نہیں ہوئی۔ میت کس سرد خانے میں رکھی گئی ہے؟ اولاد میں کون کون ہے؟ کدھر اور کہاں ہے؟ اس پر تبصرے ہونے لگے۔ تنہا رہتی تھیں، کیوں اور کہاں؟ بچے کہاں غائب ہیں؟ کیوں نہیں پہنچے؟ ان کی بے حسی کی وجوہات۔ خود عائشہ خان کی شخصیت کے مختلف پہلو عیاں و رقم ہوتے گئے۔ خوب صورت، خوب سیرت، ہنس مکھ، دیالو، فیاض، سخی، نرم دل، مہربان، معاون۔ مستحقین کے لئے کیسے گھر گھر جا کر کفیل بنتی رہیں۔ سایہ کرتی رہیں۔
اباجی اور ان کی زراعت سے محبت
شادی کے چار سالوں میں ایک شہر، دو گھر وہ بدل چکے تھے۔ وجہ نوکری تھی۔ وہ ابھی جوان تھے۔ پہلی پہلی نوکریوں کی محنت اگلی بہت بہتر مواقعوں کی صورت ان کے سامنے آ رہی تھیں۔ اس لئے وہ ’رسک اور مشقت‘ سے نہیں گھبراتے تھے۔ ایبٹ آباد سے اسلام آباد ان دنوں، دونوں ہی اب سے زیادہ خوشگوار تھے۔ تیسرا گھر اسلام آباد ایکسپریس وے پر راولپنڈی کی ایک پرانی لیکن اچھی رہائشی کالونی میں تھا۔ جس کے نچلے حصے میں وہ میاں بیوی اور ایک چار سالہ بیٹا رہتے تھے۔ سامنے گیراج کے ساتھ پانچ فٹ کا ’سیٹ بیک‘ اور پیچھے بھی چھوٹا سا پکا صحن تھا۔ علاوہ ازیں باورچی خانے کے اندر ایک دروازہ چار ضرب چار فٹ کے ایک آنگن کی طرف کھلتا تھا۔ اس شہر میں ہی اسے معلوم ہوا کہ پودوں کا شوق ہونا بھی دارالحکومت میں ایک محنت طلب اور تھوڑا مہنگا ہے کہ کرائے کے گھروں میں عموماً کچی زمین تو میسر نہیں ہوتی کہ کیاریوں میں کچھ اگا سکیں۔ لان بھی ایک عیاشی ہے۔ تو جو سر پھرے اس دلچسپی میں رہتے ہیں۔ پہلے گملے خرید کر لاتے ہیں اور پھر ان میں بھرنے کو مٹی۔ وہ بھی ہر ہفتے نرسری جاتی۔ تب مہران گاڑی پاس ہوتی تھی۔ اس کی چھوٹی ڈگی اور پچھلی سیٹ پر جو کچھ اور جتنا رکھا جاتا۔ وہ دونوں میاں بیوی بچے کے ہمراہ گھر لاتے۔ کبھی دو گملے، ایک بوری مٹی، کچھ پودے۔ کبھی صرف گملے انھی سے تیار کروا کے۔ اور کسی ہفتے کچھ بھی نہیں۔ گھر کی جتنی بڑی، چھوٹی پلاسٹک کی بوتلیں ہوتیں وہ انھیں کاٹتی، ان میں پودے لگاتی۔ چھوٹی بوتلوں کو پینٹ کرتی۔ شیشے کے جار، بوتلیں سجاتی ان میں منی پلانٹ رکھتی۔
انسانی جان اور ہمارے ادارے
گھر کی مددگار آج پھر کافی تاخیر سے آئی تھی۔ خاتون خانہ آج دفتر سے چھٹی پر تھی۔ ہاں تھوڑا بہت ضروری ساتھ ہو بھی رہا تھا کہ طبیعت کچھ نڈھال تھی۔ لیکن ملازمہ کا دیر سے آنا اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ خیر جب وہ آئی تو اس نے شکر ادا کیا۔ ابتدائی دعا، سلام کے بعد کہنے لگی۔ آج بہت پریشان ہوں۔ پھر گھر پر لڑائی ہوئی ہے۔ نہیں باجی۔
کیا بھوک کے بت، ابراہیم علیہ السلام کے کعبے کے بتوں سے بھی بڑے ہیں؟
بھائی صاحب آپ دس قدم کی دوری پر آئے ہوتے ہیں۔ ہماری طرف لوگ ویسے ہی کم ہوتے ہیں۔ گاڑی بھیجتے ہیں لیکن آپ کبھی آتے ہی نہیں۔ مجلس اور درس میں آ جایا کریں۔ کیا آیا کروں؟ اتنے سال بعد آیا ہوں لیکن تم لوگوں کا تبرک چنے والوں چاولوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہماری طرف تو اب غریب سے غریب بھی چکن پلاؤ اور بریانی سے کم بات نہیں کرتا۔ اور خود میں تو روسٹ بانٹتا ہوں۔ اوپر سے نہ کوئی سلاد، رائتہ اور اچار۔
سفر حجاز: کیا تیاری ہو؟
خانہ کعبہ پہلی مرتبہ نظروں کے سامنے آئے تو یہ دعا مانگنی ہے۔ طواف کرتے ہوئے ان کلمات کا ورد اور ذکر کرنا ہے۔ سعی کی دوڑ کرنی ہے تو یہ گڑگڑا کر کہنا تو ہرگز نہیں بھولنا۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری ہو گی تو یہ التجا کرنا تو بالکل نہیں بھولنی۔ فلاں کا سلام، فلاں کی دعا تو لازمی پہنچانی ہے، اور ایسی کئی باتوں کی تیاری جو روح کو مطمئن کرنے کا سبب بنیں، سبھی حاجی اور زائرین حج و عمرہ سے پہلے خصوصاً کرتے ہیں۔ لیکن کچھ تیاریاں اس کے علاوہ بھی ہوتی ہیں۔ سوچنی ہوتی ہیں۔ بلکہ اس حوالے سے معلومات ہونا اہم ہیں جو انتظامی و انصرامی معاملات میں مددگار بنتی ہیں۔ وہ چیدہ چیدہ پہلو کیا ہیں؟ آئیں تجربے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ مختصر سامان: اس مبارک سفر پر خواتین کے پاس دورانیہ کے لحاظ سے عبایہ ہوں۔ دو ہفتوں کا ٹرپ تین سے چار میں گزر جاتا ہے اگر آپ احتیاط سے استعمال کریں اور تھوڑا نظر انداز کریں۔ مرد احرام اور ساتھ سوٹ، بیلٹ کی طرح کا بٹوا۔ ٹوتھ برش، بال بنانے کی کنگھی، خوشبو، ویزلین، لوشن، تولیہ اور بس۔ زیورات، گھڑیاں یا ذاتی آرائش کی اشیاء کوشش کریں نہ رکھیں۔ نہ اس سفر کی ضرورت ہے نہ پسندیدہ۔ پیکنگ کا اصول، ہر ایک کا اپنا بیگ پیک: یعنی ہر فرد کا ایک بیگ پیک جسے وہ خود ’ہینڈ کیری‘ کے طور پر اٹھائے۔ آٹھ سال سے اوپر والے سبھی افراد پر اسے بآسانی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ہر ایک کی چیزیں بشمول کپڑے، چشمے، جوتے، ٹوتھ برش ہو باقی مشترکہ کسی ایک کیری میں۔ اس سے نہ صرف سامان رکھوانے اور لینے کی لمبی قطاروں کو دور سے سلام ہو گا۔ بلکہ کوئی ایک فرد سب کا سامان ڈھونے والا گدھا بھی نہیں بنے گا۔ تیسرا یہ کہ کہیں بھی نکلنا بہت سہل۔ مقامی طور پر ٹیکسی، بسوں یا ریل گاڑیوں کے سفر سے لطف لیں گے نہ کہ بس سامان کی فکر، اس کے لئے خواری کرتے ہلکان ہوتے رہیں۔ اس دفعہ تو واپسی پر بورڈنگ پاس جاری کرنے والے ملازمین کی حیرانی ’لگیج‘ دیکھ کر اتنی تھی کہ چار بار پوچھا، بس اتنا ہی؟
صورت کسی کی، عمرہ اماں کا
’توں اداس نہیں ہوندی، میں تاں بڑی اداس آں‘ (تو اداس نہیں ہوتی؟ میں تو بہت اداس ہوں ) ۔ فون بوتھ کے ایک طرف یہ آواز ابھرتی تو دوسری طرف خاموشی ہوتی۔ اظہار کرنے والی تو کہہ کر ہلکی ہو جاتی۔ اور جدھر خاموشی ہوتی ادھر یہ الفاظ دل پر لکھے جاتے۔ ان مٹ رہتے۔ ہفتے میں ایک مرتبہ جامعہ سے گھر بات ہونے پر وہ یہ یا اس سے ملتا جلتا جملہ سنتی۔ سو روپے کا کارڈ ڈالنے پر زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ گفتگو ہو سکتی تھی۔ فاصلے زیادہ تھے، پیسے کم اور کارڈ مہنگے۔ شادی سے پہلے سات سال وہ گھر سے باہر رہی۔ تعلیم، نوکری، عملی زندگی کی جدوجہد۔ ایسے کئی ہفتے آئے اور گزر گئے۔ فاصلے کم نہ ہوئے لیکن چار سال کی پڑھائی کے بعد کمائی نے تیسرے سال ملنے والے موبائل کا بل برداشت کرنا شروع کر دیا۔ فون بوتھ اور اس میں ڈلنے والے کارڈ سے چھٹکارا مل گیا۔ آوازیں ہفتے میں ایک بار کی بجائے دو تین دفعہ سننے کو ملنے لگیں۔ بہت کچھ آہستہ آہستہ بدلنے لگا لیکن اگر کوئی نہیں بدلا تو وہ وہی اظہار تھا۔
کچن گارڈننگ: گھروں میں ٹھوس فضلے کا حل
پوش علاقوں میں بھی گزریں تو گھریلو کچرے کے شاپر گلیوں میں کتے، بلیوں کے ہاتھوں بھنبھوڑے نظر آتے ہیں یا پرندے ان میں سے کچھ نہ کچھ اپنی چونچوں میں پکڑے کھاتے، گراتے اڑ رہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ بڑے بڑے عموماً کھلے منہ والے کوڑے دان بھی کوڑے کی بدبو، مچھروں اور مکھیوں کا پسندیدہ ترین مسکن ہوتے ہیں۔ بلیاں الگ ان کے اوپر جھول رہی ہوتی ہیں یا ان کے اندر دعوت عام منا رہی ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ کوڑا اکٹھا کرنے کا ایک منظم نظام اور مخصوص عملہ ہوتا ہے۔ رہائشی جس کے بدلے ماہانہ ’سروس چارج‘ ادا کرتے ہیں۔ متوسط، کم آمدنی اور کم منصوبہ بندی والے رہائشی علاقوں میں تو حالات اس سے بھی ناقص ہوتے ہیں۔ سبزی، پھلوں کے چھلکے، گوشت کی ہڈیاں، گھروں کے مرکزی دروازوں کے باہر تب تک جانوروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جب تک کمیٹی والی گاڑیاں یا ذاتی سطح پر رکھا جانے والا کوڑا اکٹھا کرنے والا نہیں آ جاتا۔ جس کے لئے سارا دن میں کوئی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف گھروں میں آنے والی مددگار اپنے اوقات کار کے مطابق کوڑے کے ڈبے اور شاپر گلیوں میں رکھ جاتی ہیں، بھلے کوئی کب اٹھائے۔ مکین تو ویسے ہی اس ذمہ داری کو خلاف شان سمجھتے ہیں۔ انھی کالونیوں میں خالی پڑے پلاٹ بھی ساری کالونی میں گند پھینکنے کا مفت اور ’آل ٹائم‘ دستیاب موقع ہوتا ہے جس کے استعمال میں کسی کو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ اکیسویں صدی میں جب کہ دنیا تخلیق، جستجو، تکنیک، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں کیا کیا دعوے کر رہی ہے۔ ’پیڈ‘ کے علاوہ ’اوپن سورس‘ کی دھوم ہے۔ عالمی سطح پر کوڑے کو توانائی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ نامیاتی کھادوں کو متعارف کرایا گیا ہے۔ پودوں کے لئے ڈی کمپوز ایبل برتن بنائے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ میٹرک کی ایک طالبہ نے اپنے استاد کے ساتھ مل کر مونگ پھلی کے چھلکوں کے گملے بنانا شروع کیے ہیں۔ ناریل کے خول اور برادے سے بھی ایسی ہی ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔
لڑکوں کو داماد بنتے ہی کیا ہو جاتا ہے؟
کھانا گرم کروا کے بھیجا تھا؟ کیا چارپائیوں کا انتظام نہیں ہو سکتا؟ نیچے فرشی نشست پر کیسے سوئیں گے؟ بستروں کی چادر اور تکیوں کے غلاف گرم موسم کے مطابق کرو اور لحاف نئے دو۔ فلاں بہن کے شوہر تو صرف کمبل لیتے ہیں۔ یار صبح ناشتے میں تازہ گھر کے پراٹھے اور دودھ پتی بنوانی ہیں۔ گیزر بھی نہیں ہے۔ انھیں ٹھنڈے پانی سے منہ، ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔ کم از کم کل نہانے کا پانی گرم کروا دینا۔ سارا خاندان شادی پر جمع تھا اور میزبان نے کسی کو بلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میکہ، سسرال، دوست، احباب، محلے دار، ہمسائے، حتیٰ کہ شادی شدہ بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں اور ان کے گھر والے۔ اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ جب سے آیا تھا۔ سب اسے اسی طرح ہلکان ہوتے دیکھ رہے تھے۔ کچھ کزن یار، دوست اسے پرسکون رہنے کا کہہ رہے تھے۔ کچھ حیرت سے تکتے تھے اور کچھ خاموش تھے کہ ان میں اکثر خود اسی دوڑ میں کبھی نہ کبھی پڑے رہتے ہیں۔ لیکن اس کا یوں فکرمند ہونا پھر بھی اچنبھے کی بات تھی۔ وہ جو خود ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ اکلوتا ہے اور یہ زعم اس کے اردگرد رہنے والے سبھی نے جی جان سے اس کو دیا ہے۔ خدا نے خوش الحانی دی ہے جس کا اسے خوب ادراک ہے۔ خوبصورتی، اچھے قد کاٹھ سے قدرت نے نوازا ہے اور اس کا غرور اس کے ہر انداز میں جھلکتا ہے۔ ایک ہی ہونے کی وجہ سے جو والدین کے وسائل ہیں، ان کا وہی کار مختار ہے۔ یعنی سب کچھ مولا کی دین۔ لیکن جو صفات خود پیدا کرنی ہیں اس میں صفر۔
اپنا کمانے والیاں
دیکھ بیٹی! جو عورتیں خود کماتی ہیں۔ انھیں اپنے فیصلے کرنے کی کافی خود مختاری ہوتی ہے۔ اس لئے اپنا کما۔ یہ ڈائیلاگ ایک ڈرامے ’تن من نیل و نیل‘ میں سنا۔ دل پر لگا اور کئی خود کمانے والیاں پردہ یادداشت پر آ گئیں۔ اپنی ’زندگیوں‘ میں کتنا اختیار ان کے پاس ہے؟ آئیں ان میں سے کچھ کو آپ بھی دیکھ لیں۔ پہلی کمانے والی کی شادی کو تو اب بیس سال ہو گئے ہیں۔ اور اس سے بھی ایک دو سال پہلے سے ہی وہ سرکاری اسکول کی استاد ہے۔ اتنے سال سے پیسے کما رہی ہے۔ لیکن دوسری باتوں کو تو چھوڑیں۔ شادی کے لئے رضامندی بھی کسی نے نہ لی۔ اور شادی کے بعد تو کھانا میں کیا پکانا ہے، اس کا فیصلہ بھی ساس کرتی ہے۔ اور جو جہیز بھر کر ٹرک لے کر گئی تھی، اس کا استعمال کب اور کہاں کرنا ہے۔ اس پر ان کے علاوہ سارے سسرال کی مرضی تھی۔ سونے پر سہاگہ جب پانچ سال بے اولادی کے ہو گئے تو بچہ گود لینے کا فیصلہ بھی ان پر مسلط کیا گیا۔ اور جب تین سال ٹکریں مار مار کر اس کو پالنے کا ہنر سیکھ لیا تو ہفتے دس تک انھیں کہیں مہمان بھیج کر پیچھے سے بنا بتائے اہتمام سے شوہر نے دوسری شادی کر لی۔ دوسری کا حال سنیں۔ طبیب ہے۔ مستقل ملازمت ہے۔ سرکاری گھر بھی اسی کا مرہون منت ہے۔ ساتھ میں کلینک بھی۔ نہ دن کا خیال نہ رات کا۔ اپنا کیرئیر بنانے کا جنون ہے اوپر سے شوہر بھی تجربوں کا شوقین۔ اس لئے یہ تجربے نوکری پر نکلتے رہتے ہیں۔ خیر جو بھی ہے، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ ساتھی بن کر قدم چلا رہے ہیں۔ گھر کی معاشی کفیل وہ طبیبہ ہے۔ لیکن اس کی آمدنی کہاں خرچ کرنی ہے۔ اس کا فیصلہ بنک اکاؤنٹ بھرنے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ کتنی کمیٹیاں ڈالیں گے اور کتنے کی؟ اس کی خبر اس کو پہنچا دی جاتی ہے۔ گاڑی خرید کر استعمال کس نے کرنی ہے، اس معاملے میں بھی وہ معزول ہی ہے۔