انسانی جان اور ہمارے ادارے
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
15/05/2025
گھر کی مددگار آج پھر کافی تاخیر سے آئی تھی۔ خاتون خانہ آج دفتر سے چھٹی پر تھی۔ ہاں تھوڑا بہت ضروری ساتھ ہو بھی رہا تھا کہ طبیعت کچھ نڈھال تھی۔ لیکن ملازمہ کا دیر سے آنا اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ خیر جب وہ آئی تو اس نے شکر ادا کیا۔ ابتدائی دعا، سلام کے بعد کہنے لگی۔
آج بہت پریشان ہوں۔
پھر گھر پر لڑائی ہوئی ہے۔
نہیں باجی۔
تو پھر پیسوں کی وجہ سے؟
وہ تو باجی ہر وقت ہی لگی رہتی ہے۔
تو آخر کیا وجہ ہے؟ آج آئی بھی کافی دیر سے ہو۔
کیا بتاؤں باجی۔ اکٹھی دو فوتگیاں ہو گئیں۔
کون فوت ہوا ہے؟
میری بھانجی کے بچے۔ سال کے فرق سے آٹھ اور نو سال کے تھے۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی۔
اللہ رحم! کیا ہوا؟
ڈوب کر مر گئے۔
کہاں؟ گھر والے کدھر تھے۔
ایک گلی چھوڑ کر کھیلنے گئے تھے۔ اور پہلی دفعہ تھوڑی تھا۔ روز ہی جاتے تھے۔ ساری بستی ہی برادری کے گھروں سے بھری پڑی ہے۔
تو پھر؟ وہاں کس میں ڈوبے؟ قریب کوئی دریا تھا یا نالہ؟
کچھ بھی نہیں باجی۔ وہ جو اتنی بڑی اور مشہور، ہزاروں ایکڑ پر رہائشی کالونی بنی ہے۔ وہ بستی سمجھو اسی میں آ گئی ہے۔
اس کا کیا تذکرہ؟
باجی انھوں نے کچھ دن پہلے گہرا کنواں وہاں بستی کے قریب کھودا تھا۔
کس لئے؟
پانی کی ٹینکیاں اور گاڑیاں بھر بھر ادھر سے جاتی دیکھتے ہیں۔ وہ دونوں بہن بھائی کھیلتے کھیلتے اس تک گئے۔ اور اس میں گر گئے۔
ہائے ہائے! کوئی نشان، کوئی باڑ، جنگلہ، چار دیواری، ڈھکن یا احتیاطی تختی نہیں لگی تھی؟
نہیں نہیں۔ بستی والوں کو تو اب معلوم ہے لیکن کسی انجان کو تو اتنا بھی پتہ نہ چلے۔ کھلا پڑا ہے۔
یہ تو ظلم ہے۔
باجی! بچے گرے لیکن گھر والوں کو تو خبر ہی نہیں۔ وہ تو یہی سمجھتے رہے کہ روز کی طرح واپس آ جائیں گے۔ جب نہیں آئے۔ اور دیکھا تو اس وقت تک بیٹے کی لاش پانی پر تیر رہی تھی اور بیٹی ابھی ڈوبی ہوئی تھی۔ لیکن بچی تو وہ بھی نہیں۔
باجی! سوچتی ہوں، وہ دونوں کتنا تڑپتے ہوں گے۔ آوازیں دیتے ہوں گے۔ جان بچانے کو ہاتھ پاؤں مارتے ہوں گے۔ لیکن سب بے خبر رہے۔ باجی وہ تو نا سمجھ تھے۔ سمجھداروں نے بھی پرواہ نہیں کی۔ پانی کے کنویں کو موت کا کنواں بنا دیا۔ کیا تھا اگر اس کو بند کر دیتے۔
یہ برسوں کے وقفے وقفے سے تیسرا، چوتھا واقعہ ہے جس نے میرے دل کو جکڑ رکھا ہے اور بذات خود بحیثیت انسان، معاشرہ اور پیشہ ور منصوبہ سازوں اور اداروں پر ایک کڑا سوال ہے۔ کیونکہ ہمارے محلے، گلیاں، آبادیاں، شہر اور علاقوں میں یہ چھوٹی، بڑی کوتاہیاں بڑی جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔
وہ پندرہ سال کا نوجوان تھا۔ پورے گھر میں سب سے الگ۔ صوم و صلوٰۃ کا پابند۔ پڑھائی میں آگے آگے۔ ایم بی بی ایس اس کا خواب دن رات اسی لگن میں ہلکان، محدود حلقہ احباب، خدمت انسانیت کے مقصد کے لئے زندگی، اس دن موسلا دھار بارش صبح سے ہو رہی تھی دن میں کچھ تھمی تو وہ مسجد کی طرف بھاگا۔ بارش کے پانی کی ناقص نکاسی کے سبب گلیاں پانی سے بھری ہوئی تھیں۔ بچتا بچاتا، شلوار کو ٹخنوں سے اوپر چڑھائے وہ مسجد پہنچا۔ ظہر کی باجماعت نماز سے واپس آ رہا تھا کہ یک دم بائیں پاؤں کو جھٹکا لگا یوں جیسے ہموار سڑک سے بے اختیار نیچے نیچے کو ہو جس نے اسے بری طرح غیر متوازن کیا۔ اور وہ پورے کا پورا پانی میں ڈوبنے لگا۔ جیسے جیسے ڈوب رہا تھا۔ غلاظت، بدبو، گند، آلودگی اس کے پاؤں کے تلووں سے سر کے بالوں تک لپٹ رہی تھی۔ وہ باہر نکلنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ منہ کھول نہیں سکتا تھا کہ گٹر میں پڑا تھا۔ ویسے بھی نتھنوں سے آنے والی بو اور نجاست اس کا دم الٹائے دے رہی تھی۔ اوپر سڑک پر ویسے ہی دو دو فٹ پانی موجود تھا، بارش پھر سے برس رہی تھی۔ راہ گیروں اور رہائشیوں کا گزر اس وقت نہ ہونے کے برابر تھا۔ نجانے کتنی دیر وہ ادھر پڑا رہا۔ جب خبر ہوئی، تلاش شروع کی گئی اور نکالا گیا تو اس کی زندگی تین سو ساٹھ ڈگری کا موڑ لے چکی تھی۔ اللہ سے ناراضگی کہ اتنی محبت کے باوجود اس نے اس کے ساتھ یہ حادثہ لکھا۔ گٹر میں اسے ناپاک کیا۔ وہم کا شکار الگ ہوا۔ اتنا بڑھا کہ گھنٹوں خود کو صابن سے دھوتا، پانی بہاتا، خوشبوئیں چھڑکتا لیکن قرار نہ آتا۔ جسمانی چوٹیں الگ لگیں۔ جن کے نشان تاحیات کے لئے رہ گئے۔ کہاں کی ڈاکٹری، کہاں کی کتابیں؟ صرف ایک ’سیوریج کے مین ہول‘ پر ڈھکن نہ ہونے اور عرصے سے کھلا رہنے نے اس کو ساری زندگی اور خواہشات کو ایک ’ٹراما‘ کی نذر کر دیا۔
اور وہ حادثہ تو بھلائے نہیں بھولتا جو ایک جاننے والی کے ساتھ پیش آیا۔ خود وہ ایک اسکول میں استاد ہیں۔ گیارہ سالہ بیٹی بھی ساتھ ہی جاتی تھی۔ گھر سے نکلو تو پانچ دس منٹ کے فاصلے پر مرکزی شاہراہ تھی۔ جسے پار کر کے دوسری جانب پہنچنا ہوتا تھا۔ جس کے لئے سڑک کے اوپر پیدل چلنے والوں کے لئے پل بنا تھا۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ ساون جوبن پر تھا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ کئی میل تک بہت دن پہلے کسی حکومتی ادارے کی طرف سے کھدائی ہوئی پڑی تھی۔ گہری اور چوڑی۔ جسے پار کرنے کو لکڑی کا ایک تختہ لوگوں نے خود ہی رکھ کر عارضی حل نکال لیا تھا۔ برسات کے بہانے کام بند تھا اور سب کچھ کھلا ہی پڑا تھا۔ جسے سونے پر سہاگہ پانی نے بھر دیا تھا۔ مچھر، کوڑے، تعفن کا گڑھ بنتا جا رہا تھا۔ ایک دن وہ خاتون، بیٹی کے ہمراہ معمول کے مطابق نکلیں۔ کچھ دیر ہو چکی تھی۔ جلدی جلدی آگے پیچھے، چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے لکڑی کا تختہ پار ہوا تو بیٹی کو دھیان سے تاکید کی۔ اور جب پیدل چلنے والے پل کی پہلی سیڑھی پر قدم دھرنے لگی تو عادتاً پھر بیٹی کو اپنی پشت پر خیال کرنے اور تھوڑا ساتھ چلنے کا کہنے کو گردن موڑی تو بچی غائب تھی۔ ایک بے یقینی بھرا صدمہ تھا۔ لمحوں میں جان جگر کہاں گئی؟ خاموشی سے کوئی اغوا کر کے، سونگھا کے لے گیا؟ ورنہ دکھائی تو دیتی۔ کندھے پر لٹکا پرس اور ہاتھ میں پکڑی کتابیں زمین بوس ہوئیں۔ حواس باختگی میں بیٹی کو پکارتی، لوگوں سے پوچھتی لیکن سب انجان۔ خود کو کوستی، الزام دیتی کہ انگلی پکڑ کر رکھتی۔ آئے روز زیادتی، ظلم کے واقعات ذہن و دل کو مزید بے جان کرتے۔ کون گھر لایا؟ کس نے باپ کو اطلاع کی، کوئی ہوش نہ رہا۔ تین دن تک پولیس، تھانے کے چکر، ارد گرد تلاش سب جاری رہا اور ہر گزرتا دن اسے بے جان کرتا گیا۔ تیسری شام بچی کی لاش لب سڑک اس لبالب بھری کھدائی سے ملی جہاں لکڑی کا تختہ اسے پار کرنے کو رکھا تھا۔ نجانے کب آگے جاتی ماں کی آنکھ اوجھل ہوئی، کب وہ گری، غائب ہونے پر ادھر ادھر کے سبھی اندیشوں کے تحت کہاں کہاں ڈھونڈا جاتا رہا لیکن بغل میں موجود اس جگہ کا کسی کو خیال نہیں آیا اور اس کے دل کا ٹکڑا بے بسی سے دنیا چھوڑ گیا۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق دو ہزار چوبیس میں پندرہ سے بیس لوگ بشمول بچے اور بالغ بغیر ڈھکن کے کھلے گٹروں میں گر کر مر گئے۔ ٹرائبیون میں لکھا گیا کہ ہر ماہ، کراچی میں دس سے پندرہ واقعات ان جگہوں میں گرنے کے ہو رہے ہیں جن میں شکار ہونے والے پچانوے فی صد بچے ہیں۔
اس طرح کسی نہ کسی پیارے، خصوصاً بچوں کا بچھڑنا متعلقہ اداروں اور حساسیت پر ایسے کئی سوالات اٹھاتا ہے :
مصنوعی ذہانت کے دور میں گٹروں کے ڈھکنوں کے ہونے، غائب ہونے، ٹوٹنے کو مانیٹر کرنا کیا مشکل ہے؟
گیس، ٹیلی فون، کیبل، بجلی، سیوریج کے پائپ ڈالنے کو جو کھدائیاں ہوتی ہیں ان کے گرد ایسے حفاظتی اقدامات کرنا کہ راہ گیروں، مکینوں کے لئے باعث نقصان نہ ہوں، کتنا خرچا مانگتا ہے؟
نکاسی آب اکیسویں صدی میں اگر ہمارا مسئلہ ہے تو ہماری نیتوں پر بڑا سوال ہے۔
یہ بڑی دکھ کی بات ہے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی میں اکثر وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی جس کی عوام کو توقع ہوتی ہے۔ عوام بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے ان اداروں کے دروازوں پر دستک دیتی ہے مگر اکثر انہیں بے حسی اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رویہ عوامی اعتماد کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور شہریوں کو اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ اور غیر اہم محسوس کرواتا ہے۔
دوسری طرف، فنڈز اور وسائل کی کمی اکثر بہانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اصل مسئلہ بدانتظامی اور نااہلی ہے۔ بہت سی باریکیاں، جیسے کہ فائلوں میں تاخیر، غیر ضروری کاغذی کارروائیاں اور ذاتی مفاد پر مبنی فیصلے، عوامی مسائل کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ ان کے باعث غریب اور عام شہری کے لیے انصاف اور سہولت تک پہنچنا ایک مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔
اگر یہ ادارے اپنی ذمہ داریاں دیانتداری اور ایمانداری سے ادا کریں تو ملک میں بڑی حد تک بہتری آسکتی ہے۔ بدقسمتی سے، موجودہ صورتِ حال میں یہ ادارے خود عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اکثر ان کے لیے نئی رکاوٹیں پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جسے تبدیل کرنے کے لیے سخت احتساب اور سنجیدہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔