Share
OR

سفر حجاز: کیا تیاری ہو؟

Dr. Khydija Wakil

خانہ کعبہ پہلی مرتبہ نظروں کے سامنے آئے تو یہ دعا مانگنی ہے۔ طواف کرتے ہوئے ان کلمات کا ورد اور ذکر کرنا ہے۔ سعی کی دوڑ کرنی ہے تو یہ گڑگڑا کر کہنا تو ہرگز نہیں بھولنا۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری ہو گی تو یہ التجا کرنا تو بالکل نہیں بھولنی۔ فلاں کا سلام، فلاں کی دعا تو لازمی پہنچانی ہے، اور ایسی کئی باتوں کی تیاری جو روح کو مطمئن کرنے کا سبب بنیں، سبھی حاجی اور زائرین حج و عمرہ سے پہلے خصوصاً کرتے ہیں۔ لیکن کچھ تیاریاں اس کے علاوہ بھی ہوتی ہیں۔ سوچنی ہوتی ہیں۔ بلکہ اس حوالے سے معلومات ہونا اہم ہیں جو انتظامی و انصرامی معاملات میں مددگار بنتی ہیں۔ وہ چیدہ چیدہ پہلو کیا ہیں؟ آئیں تجربے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔

مختصر سامان: اس مبارک سفر پر خواتین کے پاس دورانیہ کے لحاظ سے عبایہ ہوں۔ دو ہفتوں کا ٹرپ تین سے چار میں گزر جاتا ہے اگر آپ احتیاط سے استعمال کریں اور تھوڑا نظر انداز کریں۔ مرد احرام اور ساتھ سوٹ، بیلٹ کی طرح کا بٹوا۔ ٹوتھ برش، بال بنانے کی کنگھی، خوشبو، ویزلین، لوشن، تولیہ اور بس۔ زیورات، گھڑیاں یا ذاتی آرائش کی اشیاء کوشش کریں نہ رکھیں۔ نہ اس سفر کی ضرورت ہے نہ پسندیدہ۔

پیکنگ کا اصول، ہر ایک کا اپنا بیگ پیک: یعنی ہر فرد کا ایک بیگ پیک جسے وہ خود ’ہینڈ کیری‘ کے طور پر اٹھائے۔ آٹھ سال سے اوپر والے سبھی افراد پر اسے بآسانی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ہر ایک کی چیزیں بشمول کپڑے، چشمے، جوتے، ٹوتھ برش ہو باقی مشترکہ کسی ایک کیری میں۔ اس سے نہ صرف سامان رکھوانے اور لینے کی لمبی قطاروں کو دور سے سلام ہو گا۔ بلکہ کوئی ایک فرد سب کا سامان ڈھونے والا گدھا بھی نہیں بنے گا۔ تیسرا یہ کہ کہیں بھی نکلنا بہت سہل۔ مقامی طور پر ٹیکسی، بسوں یا ریل گاڑیوں کے سفر سے لطف لیں گے نہ کہ بس سامان کی فکر، اس کے لئے خواری کرتے ہلکان ہوتے رہیں۔ اس دفعہ تو واپسی پر بورڈنگ پاس جاری کرنے والے ملازمین کی حیرانی ’لگیج‘ دیکھ کر اتنی تھی کہ چار بار پوچھا، بس اتنا ہی؟

موبائل پر نقشہ چلانے، ڈھونڈنے اور سمجھنے کی جان کاری: ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ لاکھوں کے رنگ برنگے ہجوم میں راستہ کھو جائے یا ساتھیوں سے مقام الگ ہو جائیں یا کسی دروازے سے داخل ہو کر نکلنے کی ہدایات کسی اور طرف سے ہو جائیں، یہ ایک معمول کی بات ہے۔ کیونکہ مردوں اور عورتوں کے نماز ہال، حصے، لیٹرین، وضو خانے بہرحال علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مختلف زیارتوں کا وقت، اجازتیں، پابندیاں اور مقامات بھی مختلف ہیں۔ اسی لئے ’ڈیجیٹل میپ کمپری ہینشن‘ آپشن نہیں ناگزیر ہے۔

چھوٹا کندھوں پر ڈالنے والا بستہ: ہلکا اور آسانی سے کھلنے والا بالخصوص پیراشوٹ طرز کا، سنگل لیئر۔ جو آپ کندھوں پر اٹھائے ہر جگہ پھرتے ہوں۔ جس میں دعاؤں کی کتاب اگر رکھنا چاہتے ہوں، چھوٹے سائز کا مصحف (ورنہ وہ حرم میں دستیاب بھی ہوتے ہیں ) ، ٹشوز، دھوپ کے چشمے، ایک سے دو شاپر (جو چپل اتار کر رکھنے کے لئے ہر جگہ استعمال ہوں گے ) ، موبائل، پیسے اگر ضروری ہوں، چھوٹی پانی کی بوتل، جو وقتاً فوقتاً وضو کرنے یا پینے کے لئے ہو۔ خاص طور پر خانہ کعبہ اور مسجد الحرام میں جہاں و ضو خانے اور ٹوائلٹس مرکز سے باہر دیے گئے ہیں۔ وضو کرنے کے لئے ہر دفعہ وہاں جانے کی نہ ضرورت ہوتی ہے نہ پہنچ، نہ راستے کھلے ملتے ہیں۔ یا مقدس شہروں کی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران اس پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔

قینچی چپل: چپلیں تو کئی قسم کی خریدی جا سکتی ہیں۔ لیکن جسے ہوائی چپل کہتے ہیں وہ رکھیں۔ جس کا نچلا تلا کھردرا ہو یعنی ’نان سلپری‘ ، نرم جو چلنے میں وزنی نہ ہوں۔ کاٹے نہیں۔ اور پیروں کی تھکن میں پہننا مشکل نہ لگے۔ اس سفر کی سب سے قریبی ساتھیوں میں سے ایک چیز یہ چپل ہوتی ہے۔ بند جوتے، سینڈلز وغیرہ ’نان ریکمنڈڈ‘ کہ ہر اگلے منٹ پر وضو کرنا ہے۔ بہت سے مقامات پر احتراماً اور لازما جوتے اتارنے ہیں۔ اور پھر کئی دفعہ فوراً پہننے بھی ہیں۔ اس لئے وہ کریں جو ’پریکٹیکل‘ ہو۔

اپنا چھوٹا یا بڑا مصلیٰ: جس کو آپ جہاں چاہیں بچھائیں اور بیٹھ سکیں۔ سجدہ کر سکیں۔ تلاوت کر سکیں۔ ہر جگہ پر آپ کو قالین اور غالیچوں پر جگہ نہیں ملے گی۔ اور اگر مل بھی جائے تو اس پر بھی ترجیحاً نماز کے لئے اسے بچھا لیا جاتا ہے۔ اس کا ساتھ نہ ہو اور قسمت سے نیچے کچھ بچھا ہوا نہ ملے تو یا تو لوگ ننگے فرش پر بیٹھتے، ماتھا ٹیکتے ہیں۔ یا مکہ میں خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کے باہر کارٹنز استعمال کرتے ہیں۔ مسجد نبوی میں اس طرح ہوتے نہیں دیکھا۔

کم کھانا، مقامی کھانا: اس سفر کا مقصد ذہن میں رکھیں۔ عبادات، روحانی مشقت، زیارتیں، پیدل چلنا، بار بار چلنا، روانی میں چلنا۔ اس لئے اتنا کھائیں، جس سے تازہ دم رہیں۔ بھر پور رہیں لیکن بار بار نہ کھائیں۔ پیٹ اور جیب دونوں ہلکے رہیں گے۔ پاکستانی، افغانی، عربی بنگلہ دیشی، دیسی، بدیسی سبھی ملے گا لیکن روٹی، پانی، چاول سے لے کر سلاد، رائتہ، چٹنی سب پیسوں سے۔ کچھ بھی ’کمپلیمنٹری‘ نہیں اور ہاں اگر مرچوں سے بچیں گے تو بد ہضمی اور جلن سے نجات ملے گی۔

عربی زبان سے واقفیت: دنیا کی پہلی پانچ سے چھ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں عربی کا شمار بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ آپ کو آتی ہے۔ کم ازکم سمجھ اور کچھ چیدہ چیدہ الفاظ اور چھوٹے جملے بول سکتے ہیں تو دنیا کی کل آبادی کے تقریباً پچیس فیصد سے بات چیت کرنا آسان ہے۔ کیونکہ انگریزی وہاں ترجیح نہیں۔ ہوٹلوں، دکانوں پر اردو سمجھنے اور بولنے والا کوئی نہ کوئی پاکستانی، بنگلہ دیشی مل جاتا ہے لیکن حرموں کے اندر، باہر، شہر میں سبھی ادارتی بورڈز عربی میں ہیں۔ ملازمین کی بڑی اکثریت صرف عربی پر عبور رکھتی ہے۔ امام کی تلاوت، خطبہ، قرات، دعا کا مزہ بھی تبھی چکھا جاتا ہے جب قرآن کی زبان، محمد ﷺ کی مادری بولی سے واسطہ ہو۔ اس لئے اس زبان سے دوستی کریں۔ جس کے کئی طریقوں میں سے کچھ یہ بھی ہیں۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی مختلف شارٹ کورسز کرواتی ہے۔ کتاب ’العربیہ بین یدیک‘ پڑھیں۔ عام فہم، تصویری گفتگو اور بات چیت کا انداز۔ ڈولنگو پر مشق کریں۔ قرآن کو سیکھیں۔

صف بندی: پاکستان میں چونکہ مساجد خواتین کی پہنچ سے عموماً دور رہتی ہیں۔ اہم مواقع یعنی عیدین وغیرہ پر بھی ایسے مواقع بہت ہی کم میسر ہیں۔ اس لئے باجماعت نماز کے لئے صف بندی یعنی کندھے سے کندھا ملا کر ایک قطار میں کھڑے ہونے اور اس کی اہمیت اور طریقے سے بھی نابلد ہیں۔ اس مضمون کو پڑھیں تاکہ تقاضائے عبادت عمدا غلط نہ ہوں۔

حساسیت کی تربیت کریں : جن خواتین و حضرات کے ناک ہمہ قسم کی خوشبوؤں اور بدبووں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور دل حلق میں۔ قوت شامہ ناگوار بو کو ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ خاص طور پر خواتین کے معاملے میں تو وہ دل کو مضبوط کریں۔ ورنہ طواف کے دوران پاک جسموں کی اپنی حرارت سے بھی تنگی ہو گی۔

گورے رنگ، ملائم ایڑھیاں، غازے سب کچھ دن کے لئے بھول جائیں۔ خود کے جھلستے رنگ، پھٹی ایڑیوں، اور دھلے دھلائے چہروں سے پیار کریں کہ یہ ان سے آگے کا سفر ہے۔

سعودی عرب میں کچھ ایسا نہیں جس کو بھر بھر لایا جائے : کھجوریں ہر طرح کی ادھر دستیاب ہیں۔ قرآن عربی رسم الخط والے مل جاتے ہیں۔ مصلے، جائے نماز اچھے سے اچھا۔ ’عقال اور تھاب‘ اپنے لوکل کپڑے میں خود بنوا لیں۔ پوری دنیا کی طرح چائنہ مال سے بھرا ہوا۔ درآمدات کا شکریہ۔

کسی نے فرمائش کی کہ مکہ یا مدینہ کا کفن لا دیں۔ اتنا عام دستیاب نہیں تھا۔ کچھ تگ و دو سے ملا۔ جب خریدا تو اوپر ’میڈ ان پاکستان‘ کی مہر تھی۔ یعنی اپنے ملک کی بنی چیز دوسرے ملک کو مزید ٹیکس دے کر پھر اپنے ملک لے آؤ۔ نادانی نہیں تو کیا ہے؟ خیر کرنا پڑی کہ کسی کمزور کی دلی خواہش تھی۔ ہاں! زم زم خاص ہے۔ لیکن وہ بھی اب قیمتاً ملتا ہے۔ اور دو چار ریال نہیں تقریباً تیرہ ریال کی ایک پانچ لیٹر والی بوتل۔ تو اس لئے واپسی پر خواہ مخواہ ٹرالیاں نہ بھریں۔ زائد وزن کے غیر ضروری زائد پیسے۔ فیصلہ اور سمجھ آپ کے ہیں۔

مختصراً یہ کہ دعاؤں اور عبادات کی تیاری کریں لیکن ساتھ ہی باقی پہلووں کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ ورنہ بہترین زاد راہ تو یقیناً تقویٰ ہی ہے۔

4
0
Name