Share
OR

کیا بھوک کے بت، ابراہیم علیہ السلام کے کعبے کے بتوں سے بھی بڑے ہیں؟

Dr. Khydija Wakil

بھائی صاحب آپ دس قدم کی دوری پر آئے ہوتے ہیں۔ ہماری طرف لوگ ویسے ہی کم ہوتے ہیں۔ گاڑی بھیجتے ہیں لیکن آپ کبھی آتے ہی نہیں۔ مجلس اور درس میں آ جایا کریں۔

کیا آیا کروں؟ اتنے سال بعد آیا ہوں لیکن تم لوگوں کا تبرک چنے والوں چاولوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہماری طرف تو اب غریب سے غریب بھی چکن پلاؤ اور بریانی سے کم بات نہیں کرتا۔ اور خود میں تو روسٹ بانٹتا ہوں۔

اوپر سے نہ کوئی سلاد، رائتہ اور اچار۔

خیر اگلے سال محرم اور ربیع الاول کی نیاز چکن پلاؤ ہو گئی۔ تو کھانے کو بوٹیاں کم لگنے لگیں۔ اس سے اگلی مرتبہ چاول اور مرغی کا تناسب آدھا آدھا کر دیا گیا تو تب بھی حاضرین کی تسلی نہ ہوئی۔ جس کو سب سے پہلے کھانا ڈالنے کا موقع ملتا وہ اپنی ساری کر کے، زیادہ سے زیادہ بوٹیاں پلیٹ میں بھرتا۔ باقی رہ جانے والے کھانے کے لئے بار بار گرم لا دیں، کی آوازیں آتی رہتیں۔

اور جہاں چوبیس گھنٹے لنگر چل رہا ہو۔ وہاں خواہش اور تقاضا اس سے بھی سوا ہے۔ بریانی، روسٹ، تلے نان، مرغی پلاؤ، کباب، مٹن قورمہ کے لئے لمبی قطاریں، چھینا جھپٹی، لڑائی جھگڑے ہیں۔ جبکہ ڈبل روٹی، دال، حلوہ وغیرہ ان چاہی چیزیں ہیں۔ جو مجبوراً لی تو جاتی ہیں۔ کوئی اور ’آپشن‘ دستیاب نہ ہوں تو دو چار لقمے زہر مار بھی کیے جاتے ہیں لیکن باقی ماندہ جگہ جگہ پڑا ملتا اور بے حرمتی کا شکار ہوتا ہے۔

ایک چہلم کا حال سنیئے۔ غریب گھرانا۔ دس دن کے فرق سے دو اموات ہو چکی تھیں۔ اس دن مرحوم باپ کا چالیسواں تھا۔ گرمی الحفیظ و الامان۔ پورا گاؤں امڈا ہوا تھا۔ گیارہ بجے تک ذاکرہ/عالمہ نے اپنا خطاب اختتام پذیر کیا۔ تب سے دن کے تین بجے تک حاضرین ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اکثریت اسی آبادی یا اردگرد کی نزدیکی آبادیوں کی تھی۔ پہلی بات تو یہ کھانے کے لئے رکنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے دعا ہوئی۔ بات ختم۔ تین، چار کمروں کا گھر، برآمدہ، صحن صرف عورتوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مردوں کے لئے بیٹھک، اور گلی میں انتظام تھا۔ دوسری بات کہ کسی کا اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ اور اگر ایک دو نے ایسی کوشش کی بھی تو بزرگ خواتین نے ’اپنا دین‘ جھاڑنا شروع کر دیا۔ رسم و رواج پر زبردستی کی آگاہی دی جانے لگی۔ اور افسوس تو یہ کہ جو کچھ پڑھی لکھی خواتین تھیں بھی وہ بھی ان کی حمایت کرنے لگیں۔ حالانکہ گرمی، کم جگہ، زیادہ لوگوں کی وجہ سے بیٹھنا محال تھا۔ چار گھنٹوں کے انتظار کے بعد جو کھانا کھلا۔ تو پہچاننا دشوار تھا کہ یہ حضرت انسان ہی ہے۔ بیوہ، مرحوم کے باقی لواحقین بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ تھے۔ غم، افسوس، تعزیت جیسے سبھی احساس کونے کھدروں میں منہ چھپائے کھڑے شرمندہ تھے۔ تمیز، تہذیب جیسی قدریں تو خود سے نظر نہیں ملا پا رہی تھیں۔ غریب ہوں یا امیر ایسے منظرنامے کم یاب نہیں۔ اچھے اچھوں کا بھرم ننگا ہو جاتا ہے۔

یہ تو عام مشاہدے ہیں۔ عام ملکوں اور عام لوگوں کی باتیں اور ’کمیاں کجیاں‘ ۔ لیکن دل درد سے بھر جاتا ہے جب بھوک کا عفریت، حاجیوں، زائرین اور حاضرین کو حرم کی حدود میں انسانیت سے نیچے گراتا ہے۔ ویسے تو مسجد الحرام اور خانہ کعبہ کی حدود مکہ المکرمہ کے باسیوں پر تقریباً پندرہ کلومیٹر تک لاگو ہوتی ہیں۔ اور جو دیار غیر سے آئیں وہ تو پاک سفر کے ساتھ ہی اپنے آپ کا بہترین کرنے کو تیار ہونے چاہئیں۔ یہاں پر بانٹنے والے بھی بہت ہیں لیکن لینے والوں کا شمار نہیں۔ حرم کے اندر تو رمضان المبارک میں افطار کے پیکٹ تقسیم ہوتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ سو فیصد کوریج ہو سکے۔ حالانکہ کوشش پوری ہوتی ہے۔ باوجود اس کے ان کو لانے والی گاڑیاں دوپہر سے حرم کو جانے والی سڑکوں پر مسلسل دیکھی جا سکتی ہیں۔

علاوہ ازیں بعد از عصر تو حاضرین ساری شاہراہوں پر مصلے بچھائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کم ازکم بھی چار۔ پانچ کلو میٹر تک کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ رنگ، نسل، قوم کی تمیز نہیں ہوتی۔ انتظامیہ چیخ چیخ کر ہر چیز دیکھتی ہے کہ آنے جانے کا بہاؤ بہتر چلتا رہے۔ لیکن وہ بھی بے بس ہو جاتی ہے جیسے ہی کوئی افطار بانٹنے کے لئے اٹھتا یا نکلتا ہے۔ یوں جیسے گدھ کو نوچنے کئی ہاتھ پہنچ جائیں۔ روز کی بنیاد پر اتنی دھکا پیل ہوتی ہے کہ کئی جگہوں پر دینے والے خود کو بچا کر بھاگتے ہیں۔ پولیس ان کو نکالتی ہے۔ رزق کے ڈبے ان حملوں پر پھٹتے، سڑکوں پر گرتے ہیں۔ کوئی گوشت کے ٹکڑے کے لئے لڑتا ہے۔ کوئی چاول کی مٹھی کے لئے دوسرے کی منت کرتا ہے۔ زمین پر بکھرے ذرے اور ٹکڑے پیروں کے نیچے روندے جاتے ہیں۔ اور یہاں پر تو بہترین کا مسئلہ بھی نہیں۔ ٹافی، کپ کیک، چاکلیٹ، کھجور، پانی، پھل کی ایک قاش کسی کی بھی تمیز نہیں۔ ہر چیز کو لینے کو کئی دوڑتے، لڑتے، جھگڑتے، گریبان پکڑتے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں کے قحط کو شرماتے۔ ان کی بھگدڑ، انتظار اور حسرت کو پیچھے چھوڑتے ہیں۔ ایک دفعہ وصول کرنے کے باوجود بھی کئی کئی بار اسی ہجوم کا حصہ بنتے ہیں۔ اور یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ:

پیٹ اور نیت کی بھوک کا ابراہیم کون ہے؟
کون بنے گا؟
نفس کا کنواں کبھی بھرے گا؟
بھوک کا قبلہ کیا ہے؟
قناعت، توکل اور ایثار کیا ہیں؟

مانا کہ ماں بھی بچے کو تب تک دودھ نہیں دیتی جب تک کہ وہ روتا نہیں لیکن کہنے، چھیننے، نوچنے اور دبانے میں بہت فرق ہے۔

پیٹ کا جہنم تو پانی کی ایک بوتل، تین کھجوروں سے بھی بھر جاتا ہے۔ مسئلہ تو نظر کی بھوک کا ہے جو جمع اور طمع میں مبتلا ہے۔ بستے، شاپر اور جیبیں بھرنے کے خبط کا شکار ہے۔

ہمیں یہ تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اور کون ہمیں سمجھائے گا کہ:
جو بانٹتا ہاتھ آپ سے انچ کے فاصلے پر مڑ گیا، وہ آپ کے نصیب کا نہیں تھا۔
جو کھانا عزت و توقیر سے آپ تک اور آپ کے دستر خوان تک نہیں پہنچا، اس پر آپ کا نام نہیں لکھا۔
مولا کی مجلس، رب کے گھر، نبی کے در پر بھی اگر پیٹ کی آگ نہ بجھے تو بد قسمتی ہے۔
اگر محبت کا دعویٰ، رزق کی تکریم و احترام نہ سکھا سکے تو بیماری ہے۔

اگر خانہ کعبہ، مکہ المکرمہ اور مسجد احرام کی حدود بھی بوٹی، کھجور، پانی، چاول اور خیرات کے لئے بکیں اور پامال ہوں تو توکل کا زاد راہ غائب ہے۔

تبرک کے نام پر خود کو اتنا ذلیل نہ کریں کہ اشرف المخلوقات کا شرف ہیچ لگے۔
اپنا پانی، اور کھانے کی ضرورت کی کوئی بھی چیز اپنے لئے خود بستے میں رکھنے میں کسی نے منع نہیں کیا۔
ورنہ ہمیں واقعی ایک اور ابراہیم علیہ السلام کی ضرورت ہے جو کہ تا قیامت ممکن نہیں۔

5
0
Name