Share
OR

عائشہ خان: مُردوں کو کچھ نہیں چاہیے

Dr. Khydija Wakil

منجھی اور خود میں ایک ادارہ، عائشہ خان اس جہان سے رخصت ہو گئیں۔ فنی دنیا کا ایک اور نقصان۔ پہلے پہل یہ خبریں آئیں۔ کبھی سوشل میڈیا پر، سبھی ٹی وی چینلز پر پھر یہ تفصیلات کہ کس حالت میں مردہ پائی گئیں؟ کیسے معلوم ہوا؟ کتنے دن بعد پتہ چلا؟ کیسی بے خبری، کسمپرسی اور تنہائی میں وقت نزع آیا اور ان کی روح قبض کر کے لے گیا؟ کس کو سب سے پہلے خبر ہوئی؟ کس نے اطلاع دی؟

جیسے جیسے واقعات سامنے آتے گئے۔ ویسے ویسے سبھی میزبانوں، اداکاروں، اداروں، آشناؤں، مصنفین اور ہمدردوں کو ان سے اپنا تعلق یاد آنے لگا۔ وہ کیسی قدآور فن کارہ تھیں۔ کس کے ساتھ کیا کام کیا؟ کیسا تعلق تھا؟ بیان ہونے لگا۔ پولیس نے آ کر کیا کیا؟ تدفین ہوئی نہیں ہوئی۔ میت کس سرد خانے میں رکھی گئی ہے؟ اولاد میں کون کون ہے؟ کدھر اور کہاں ہے؟ اس پر تبصرے ہونے لگے۔

تنہا رہتی تھیں، کیوں اور کہاں؟ بچے کہاں غائب ہیں؟ کیوں نہیں پہنچے؟ ان کی بے حسی کی وجوہات۔ خود عائشہ خان کی شخصیت کے مختلف پہلو عیاں و رقم ہوتے گئے۔ خوب صورت، خوب سیرت، ہنس مکھ، دیالو، فیاض، سخی، نرم دل، مہربان، معاون۔ مستحقین کے لئے کیسے گھر گھر جا کر کفیل بنتی رہیں۔ سایہ کرتی رہیں۔

کوئی ان کے کیے پر تنقید کرتا رہا۔ بے وقوفیوں پر ماتم کرتا رہا کہ اپنی ساری جمع پونجی اولاد کے نام لکھ دی۔ کچھ بھی اپنے پاس نہ رکھا۔ اتنی صاحب جائیداد اور اپنے لئے کچھ بھی نہ بچایا ورنہ بڑھاپا ایسا تنہا اور زخم خوردہ نہ ہوتا۔ اولاد منہ دکھاوے کو ہی لیکن پوچھتی رہتی۔ تعلق اور رابطے میں ہوتی۔ کوئی لالچ ہی ان کو ان کے دروازے پر لائے رکھتا۔

یہ سب چلا۔ بہت چلا۔ ٹک ٹاکرز، بلاگرز، چینلز، اخبار سب نے ان کی موت کو بیچا اور کمایا۔ ورنہ یہ ہمارے اردگرد ہونے والا پہلا حادثہ تھوڑی ہے۔ پہلی بے حسی کی ماری لاش تو نہیں ہے۔ پہلی ماں تو نہیں ہے جو یوں منتظر مر گئی۔ پہلی عورت تو نہیں جو یوں اکیلے پن کا عذاب سہتی کفن اوڑھ گئی۔ ظلم، نا انصافی، بے رحمی، لاتعلقی ہمارے ہاں عام ہے۔ اتنا عام کہ پلک جھپکنے پر ہم بھول کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔

ورنہ ایسے کئی عقل مند اور دور اندیش والدین اور ضعیف یاد ہیں جو صاحب جائیداد ہیں۔ اپنے خرچوں کے لئے کسی کے محتاج نہیں۔ بلکہ بستر مرگ تک دینے والوں میں ہی شمار ہوتے رہے۔ لیکن اولادیں، دوست احباب، رشتے دار سب تب تک کچھ نہ کچھ خبر گیری کرتے رہے، جب تک وہ صحت مند رہے۔ بانٹنے والوں میں رہے۔ جونہی وہ بیمار، محتاج، لاچار یا دوسروں کے سہارے پر گئے، وہ اکیلے رہ گئے۔ حتیٰ کہ وفادار نوکر بھی گدھ کی طرح نوچنے لگے۔ اس کی زندہ مثالیں ہمارے اردگرد بے شمار ہیں۔

اس تناظر میں کچھ سوال اٹھتے ہیں کہ جو پیٹ کے جنے زندگی میں بھول گئے، ان کے لئے تدفین پر کیوں رکا جائے؟ جس نے تنہائی میں جی لیا اسے غیر، خاموشی سے دفن کر کے مٹی بھی ڈال دیں تو کیا؟

جن کئی گھرانوں، ناداروں کی رفیق بنی رہیں، جب غیر حاضر رہنے لگیں تو کوئی ان کے دروازے تک کیوں نہیں آیا؟ خیال یا احسان کسی چیز کا قرض تو کھینچتا؟

اداکاری کے جس قبیلے کا وہ فرد تھیں، جب کوئی ایڑیاں رگڑ رہا ہوتا ہے، وہ سب کدھر جا سوتے ہیں؟ زندوں کے لئے وقت نہیں۔ مرے ہووں پر پروگرام۔ یعنی مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا۔

کیا سبھی اداکار، فنکار غریب، مسکین، کنگلے ہیں؟ فلاحی اداروں کے ارکان ہیں۔ پیسے اکٹھے کرتے ہیں۔ اگر حکومت کچھ نہیں بھی کرتی تو مل کر مخیر افراد ایسا امدادی ادارہ کیوں تشکیل نہیں دیتے، جو ڈھلتی عمر کے اثاثوں کے ساتھ جڑے رہیں۔ ان کی بیماری، ضعیفی اور سماجی تنہائی کا علاج ہو۔

ہم بحیثیت فرد، معاشرہ، اور مذہب اخلاقی گراوٹ کے شکار کی ابتر حالت میں ہیں۔ جہاں کسی کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ ورنہ ہم کدھر تھے؟ سب کو حقوق چاہئیں۔

تو کرنے اور ماننے کی بات یہ ہے کہ پیسہ، دولت ہونا بھی کسی کے باعزت، محبت، اور صحت مند بڑھاپے یا مشکل وقت کا ضامن نہیں۔

سبھی اولادیں کمزور ہوتے ماں، باپ کو سنبھالیں، یہ بھی ایک نعمت ہے۔ جو کہ اب کے دور میں بہت کم دستیاب ہے۔

ضروری نہیں نیک صفت لوگوں کے بچے بھی ان جیسے نیک فطرت ہوں۔
ہمارے گھر اور دل پہاڑی گھاٹیوں کی طرح تنگ ہو گئے ہیں۔ جہاں گنجائش کا فقدان ہے۔
عیادت کا فرض ہم نے طاق پر رکھ دیا اور جنازے کا فرض کفایہ ہمیں ہلکان رکھتا ہے۔

’اولڈ ہومز‘ ایک ناگزیر تلخ حقیقت ہے۔ جسے جتنا جلدی مان لیں۔ وہ بہتر ہے۔ جہاں کم از کم اکلاپے کا جن نہیں ہوتا۔

جبری تنہائی بذات خود زہر ہے۔ رستے رستے جڑوں کو گھن زدہ کرتا ہے۔

کیونکہ ضروری نہیں کہ سبھی شہروں میں بند، سنسان گھروں میں مرنے والے ماں باپ کو ایدھی، چھیپا، یا کوئی سوشل ویلفیئر کا ادارہ ملے۔ اسی لئے ان کے جھریوں بھرے جسم، دھندلی پڑتی بصارتیں، کم ہوتی سماعتیں، رعشہ زدہ ہاتھ تب تک اپنے ہی کمروں اور بستروں پر بے جان ہوئے اکڑے پڑے رہتے ہیں جب تک ان سے اٹھنے والے بو کے بھبھکے کھڑکیوں اور دریچوں کی درزوں سے بغاوت کر کے کسی زندہ کے نتھنوں تک نہ پہنچیں۔

اولڈ ہومز سے متعلقہ کوئی مستند اعداد و شمار موجود نہیں۔ تاہم پنجاب میں سوشل ویلفیئر کے ادارے نے لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، نارووال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ملتان میں اولڈ ہومز بنائے ہیں۔ جو پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے کے کل تین سو افراد کو سہولت دے سکتا ہے۔ مطلب اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ نجی ادارے بھی کہیں کہیں بالخصوص بڑے شہروں میں مخیر حضرات کے تعاون سے چلتے ہیں۔ مختصراً یہ سارا کچھ معیار اور مقدار میں کافی سے بھی کم ہے۔ ان ڈھانچوں کو منظم اور فعال کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

5
0
Name