Blogs

ہمارے سارے مسائل کا حل: ٹھڈے، ڈنڈے، چھٹیاں، جلاؤ گھیراؤ

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

28/11/2024

رات کے نو بجے جب سارے دن کی تھکن اور بھاگ دوڑ ذہن تک آ جاتی ہے۔ سارا گھر اور اس کے افراد جلد از جلد اپنے آرام دہ اور ذاتی کمروں میں لیٹنے کو جانا چاہتے ہیں۔ اس گھر میں دو بچے اپنی والدہ کے ساتھ معمول سے زیادہ دیر تک کتابیں کھولے بیٹھے تھے کہ امتحانات کا آخری پرچہ وہ اپنی تمام ذمہ داری، سمجھ اور تیاری سے دینا چاہتے تھے۔ اچانک ماں نے موبائل اٹھایا تو کئی واٹس گروپ میں تعلیمی ادارے بند ہونے کی خبر تھی۔ اس نے بے بسی اور ناپسندیدگی سے یہ پیغامات پڑھے اور دل گرفتگی سے اپنے بچوں کی طرف دیکھا۔ اتنی دیر میں اسکول انتظامیہ کی جانب سے بھی ای میل آ گئی جس میں پرچے کی تاریخ تبدیل اور اگلے دن آن لائن کلاس کی اطلاع تھی۔ یوں پورے پنجاب کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ وجہ کسی مشہور نجی تعلیمی ادارے میں کسی بچی کے ساتھ کی گئی زیادتی کی خبر تھی۔ الزام تھا یا شکایت۔ حقیقت تھی یا فریب۔ کچھ معلوم اور ثابت نہیں۔ لیکن بات اتنی دبائی اور نظر انداز کی گئی کہ احتجاج کمرہ جماعت، اور کالج کی حدود سے نکل کر سڑکوں، میڈیا اور گھر گھر پہنچ گیا۔ ہائی اسکول کے طلبا و طالبات کو بجائے سنا جاتا۔ گفتگو و مصالحت و حل کے لئے میز کے گرد بٹھایا جاتا۔ خون کے جوش کو نرمی اور محبت سے دیکھا جاتا۔ اصل معاملے کی تحقیق ہوتی۔ سزا دی جاتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پولیس کا دھاوا بولا گیا۔ مار کٹائی کی گئی، لاٹھی چارج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں۔ اس سے پچھلے ہفتے بین الاقوامی سربراہان کے اجلاس کے لئے ہفتہ اتوار ملا کے کل پانچ چھٹیاں وفاقی اور جڑواں شہروں کو کی گئیں۔ دفاتر، تعلیمی ادارے، بازار، کاروبار سب بند۔ اور اس سے دو چار دن قبل فیڈرل بورڈ کا امتحان تھا اور سواں پل صبح سے ٹریفک نے بند کر رکھا تھا۔ گھنٹوں رش میں امتحانی مراکز جانے کے لئے طلبا اور ان کے والدین پھنسے رہے۔ اور بغیر کسی غلطی اور قصور کے ناکامی ان کے نام تھی۔ جس کے جسمانی، ذہنی، معاشی، معاشرتی اثرات کا اندازہ کسی کو نہیں۔

Read more...

ہماری دعائیں بھی ہماری طرح کاہل ہیں

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

27/09/2024

کسی درس میں جائیں یا محفل میں، کسی مجلس کا حصہ بنیں یا گھر میں کسی دعا کا۔ جمعہ کا اجتماع ہو یا عیدین کا۔ جب بھی امام، مدرس، عالم یا عالمہ دعا کرواتے ہیں۔ تو بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے یا وقت کے ساتھ ساتھ ہونے لگا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم عمومی طور پر بہت ہی سست ہیں۔ عمل سے عاری۔ جدوجہد سے دور۔ سب کچھ اللہ پر ڈال کر اپنے حصے کی محنت سے بھاگنے والے۔ ہماری دعائیں کیسی ہوتی ہیں؟ ذرا دیکھیے اور حقائق کے آئینے میں جانچیے : یا اللہ! بے روزگاروں کو روزگار دے۔

Read more...

ہمارے شہر، ہماری گلیاں

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

31/08/2024

یورپ جائیں تو سبھی اشارے، دکانوں اور مکانوں کے سارے نام وہاں کی مقامی و قومی زبانوں میں، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ اتریں تو عربی کا راج نظر آتا ہے، ایران کی سیر کو نکلیں تو فارسی کا بول بالا لگتا ہے، انگلستان دیکھنے کا موقع ملے تو انگریزی کی بادشاہت، امریکہ کا دورہ کریں، تو وہی انگریزی لیکن امریکی طرز کی، جاپان میں صرف جاپانی میں ہی لکھا ملتا ہے، ‘جانا ہو تو چین کی طرف چلئے‘ اور پھر چینی زبان کی حکومت دیکھئے۔ ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کئی ترقی پذیر ممالک کی جانب سفر کریں تو ہندی، نیپالی بنگلہ، لنکا یا مقامی زبانیں اور انگریزی سہیلیاں بنی ملتی ہیں، اور پاکستان کے گلی، محلوں، بازاروں میں گھومیں تو کون سی زبان نظر آتی ہے؟ قومی، مقامی یا بدیسی؟ آسٹریلیا، یورپ، یو کے، امریکہ، مشرق وسطیٰ جائیں تو مکان ہوں یا دکان، اسکول ہوں یا دوا خانے، ہوٹل ہوں یا کچھ اور، سب کی تعمیر ایک مقرر حد میں ملتی ہے۔ بالکونیاں، کھڑکیاں، بیرونی سیڑھیاں، چڑھائیاں سبھی اس کی عکاس ہوتی ہیں۔ فرنٹ ایلیویشن میں بھی توازن اور یگانگت ملتی ہے۔ حتیٰ کہ مرکزی دروازوں اور سامنے نظر آتی دیواروں کا رنگ، اونچائی، ڈیزائن سب ایک جیسا ہوتا ہے۔ باہر لٹکے اور آویزاں نام، پتے، سمت والی تختیاں بھی مروجہ قوانین کے تحت سائز، رنگ، اور الفاظ کے مخصوص استعمال پر وضع ہوتی ہیں۔ مقامی اور قومی زبانوں میں لکھی ہوتی ہیں۔ جبکہ اکثر غیر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ وہاں صورت حال اس سے مختلف ہے۔ جہاں بازاروں میں اسی فیصد تعمیرات اور رہائشی علاقوں (ماسوائے پوش کے ) کے سبھی گھر اپنی حد سے باہر بنے ملتے ہیں۔ آگے کے پکے تھڑوں نے الگ ’پبلک پلیس‘ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یا بالکونیوں نے تو ضرور گلی کے آسمان کو تنگ کر رکھا ہوتا ہے یا ’گرین سپیسز‘ کے نام پر سڑک کے اطراف پر غیر ضروری اور ناحق دعویداری ہے۔ سائن بورڈز اور رنگ برنگی ناموں کی تختیاں کیسی بے ترتیب اور کثرت سے ابل رہی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر چسپاں ہوتی ہیں کہ اصل نام اور معلومات پہچاننا دشوار ہو جاتا ہے۔ اپنے گوشہ عافیت سے باہر نکلیں تو آنکھوں کو طراوت کی بجائے تلخی ملتی ہے۔ رنگینی و سبزہ کی بجائے، ایک دوسرے پر چڑھی بے رنگ، بدحال ’بلڈنگز‘ ملتی ہیں۔

Read more...

اگر کوئی سوئٹزرلینڈ سے پاکستان آ جائے؟

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

12/08/2024

اس دن ہم دفتر سے نکلے۔ شام ابھی دور تھی۔ ہمارے دو مرد ساتھی بھی ساتھ تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ویسے تو موسم گرما تھا۔ لیکن لندن کی گرمی بھی آپ کو ہلکی جیکٹ ساتھ رکھنے کو مجبور کرتی ہے۔ نجانے کب آسمان برس جائے؟ کب دھوپ چمکنے لگے؟ اس لئے ساوتھ پول سے گئے باشندوں کو تو ٹھنڈ لگتی ہے اور ’نارتھ پول‘ والے بے دھڑک پھرتے ہیں۔ ان میں سے دو دنیا کے جنوب (پاکستان) اور دو شمال (سوئٹزرلینڈ) سے تھے۔ سبھی نے گڈ ہوٹل کی طرف جانا تھا۔ چالیس منٹ میں دو ٹرینیں بدل کر پہنچنا تھا۔ پہلا اسٹیشن دس منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ اسی لئے سب اپنے اپنے لیپ ٹاپ والے بیگ کندھوں پر ڈالے چہل قدمی کرتے ہوئے منزل کی طرف گامزن تھے۔ ہم خواتین اور مرد دو دو کے گروپ میں آگے پیچھے چل رہے تھے۔ ہلکی پھلکی باتیں ہو رہی تھیں کہ شمال سے آنے والی نے پوچھا، تمہیں یہاں آنا کیسا لگ رہا ہے؟ جنوب والی: اچھا ہے۔ پہلی دفعہ لندن آئی ہوں تو جو اس کے بارے میں کتابوں میں پڑھا، دوسروں سے سنا، ڈاکومنٹریز، فلموں، ڈراموں اور ویڈیوز میں دیکھا۔ اس کے تجربات خود کر رہی ہوں۔ بے اعتبار موسم، دھوپ چھاؤں کے منظر۔ گرمی، سردی کا امتزاج۔

Read more...

ساحل عدیم، خلیل الرحمان قمر یا معاشرتی زعم

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

04/07/2024

مائیک پکڑے لڑکی کے دائیں طرف ایک اور لڑکی اور بائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ اوپر نیچے بنی حاضرین کی قطاروں میں وہ پہلی قطار تھی۔ سبھی شرکاء لڑکے، لڑکیاں جوانی کی حدوں کو چھوتے تھے۔ نام بتانے کے بعد اس کا کہنا تھا کہ آپ نے خواتین کو جاہل کہا۔ اس لئے آپ کو معافی مانگنی چاہیے۔ دو چار فقروں پر مشتمل اپنی بات میں اس نے یہ بات دو دفعہ دوہرائی۔ کیمرا اس وقت تک صرف حاضرین پر مرکوز تھا۔ لڑکی کی بات کے اختتام پر کیمرا گھومتا ہوا اسٹیج پر رک گیا۔ اور سامنے اسٹیج پر دو مہمان اور ایک میزبان براجمان ہیں۔ شرکاء کی طرف سے دیکھیں تو درمیان میں میزبان (عائشہ جہانزیب) اور الٹے ہاتھ (ساحل ندیم) پہلا اور سیدھے ہاتھ (خلیل الرحمان قمر) دوسرا مہمان بیٹھا ہے۔ الٹے ہاتھ والا مہمان: کس لئے معافی؟

Read more...

ریس کے گھوڑوں کو گدھا بنانے کی ضد

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

27/06/2024

مجھے شادی نہیں کرنی۔ ایک دو سال میں اپنا کاروبار کرنا چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں مزید دو کورسز کرنے ہیں۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں زندگی کا سفر شروع کرنے سے پہلے معاشی طور پر مستحکم ہوں۔ میں شادی کی مخالف نہیں لیکن مجھے بس کچھ وقت درکار ہے۔ وہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویٹ تھی۔ گھر کی بڑی اولاد تھی۔ والدین تعلیم کے شعبے سے ہی منسلک تھے اور ان کی زندگی کی سب سے بڑی انویسمنٹ بچوں کی تعلیم، طریقہ سلیقہ اور آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ لیکن ساتھ ہی وہ اب اس کے لئے مناسب ساتھی کے متلاشی تھے۔ صحت کی مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے بروقت اس کے لئے ہمسفر چاہتے تھے۔ باقی سب باتیں ایک طرف لیکن ان کی سب سے پہلی ترجیح وہ انسان تھا جو اسے آگے بڑھنے کی جستجو میں سمجھے، ہم قدم ہو۔ اس کی دماغی صلاحیتوں پر قدغن نہ لگائے۔ انھی باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اس کے لئے بر منتخب ہوا۔ بر دکھاوے کے دوران یہ بات بڑے سادہ، آسان اور واضح انداز میں لڑکے والوں کو پہنچائی گئی تاکہ فیصلہ لینے میں کوئی قباحت نہ ہو۔ اگر اس خیال کے ساتھ ان کی مماثلت ہو تو بات آگے بڑھے۔ جس پر لڑکے والوں کی طرف سے بہت سے وعدے کیے گئے۔ مختصر یہ کہ نکاح ہو کر وہ سسرال آ گئی۔ تین چار ماہ گزرے، تو لڑکی ایک تین سالہ بین الاقوامی وظیفے کے لئے منتخب ہو گئی۔ لڑکے کو چپ لگ گئی۔ ساس خاموش اور سسر نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ مجھے لڑکیوں کا نوکری کرنا پسند ہی نہیں۔ گھر کی چار دیواری ہی عورت کا تحفظ ہے۔ نوکری پیشہ عورتیں شوہروں کی عزت نہیں کرتیں۔ جب ہم نے نوکری نہیں کروانی تو مزید پڑھنے کی کیا ضرورت؟ اس دن سے وہ روز ’ذہنی جنگ‘ اور ’انٹلکچوئیل تھرسٹ‘ کا شکار ہے۔ روزمرہ کے گھریلو ذمہ داریاں اس کی ذہنی استعداد اور خداداد قابلیت سے کہیں کم ہیں۔ وہ بچپن سے ہی مختلف تھا۔ آسمانوں کو چھونے کی باتیں کرنا۔ تاروں پر کمندیں ڈالنے کی خواہشیں کرنا۔ اونچی اڑان بھرنا۔ اس کی الگ ہی ڈگر تھی۔ ٹافی، بوتل، لالی پاپ میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کھانے، کپڑے، لتے، اس کی گفتگو کا موضوع نہیں تھے۔ دوسروں کے بارے باتیں کرنا، کبھی بھی اس کو پسند نہیں رہا تھا۔ وہ تکنیکی کاموں کا ماہر تھا۔ معمول سے دس قدم آگے کا اور انوکھا دماغ تھا۔ گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا نت نئے خیالات پر کام کرتا۔ لیکن جس ماحول میں وہ پل رہا تھا۔ دن رات کرتا تھا۔ سب نالاں تھے۔ دن بھر وقت ضائع کرنے پر تنگ تھے۔ راشن وہ نہیں لاتا تھا۔ گھر کے بلب، لائٹیں، ٹونٹیاں وہ نہیں لگا سکتا تھا۔ پانی کی موٹر خراب ہو جائے تو وہ نااہل تھا۔ گھنٹوں رشتے داروں کے ساتھ بے مقصد نہیں بیٹھتا تھا۔ ہفتہ، ہفتہ بھر کے لئے کسی کے ہاں شادی بیاہ کے لئے کہیں نہیں جاتا۔ دعوتوں، نذرانوں میں غیر حاضر ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جسے سلام کیا جاتا، گھر کے اندر اکثریت اس سے خفا ہے۔

Read more...

اربن پلاننگ میں خواتین کا حصہ کہاں ہے؟

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

28/03/2024

میں بہت تھک گئی ہوں۔ برا بننا نہیں چاہتی لیکن بسا اوقات تھکن، مایوسی، بیزاری اتنی ہو جاتی ہے کہ اچھائی ہاتھوں سے پھسلتی لگتی ہے۔ پکڑنا بھی چاہوں تو ہاتھ نہیں آتی۔ یقین جانو! بہت تکلیف میں ہوں۔ لگتا ہے پورا شہر، سارے خاندان والے، ارد گرد کا ماحول سبھی مخالف ہیں۔ میرا کچھ بھی نہیں۔ جو سہارا دے۔ آسانی بنے۔ اگر یہ امتحان ہے تو میں تو دینے کو تیار ہوں۔ آزمائش ہے تو مولا کی منشا میں راضی برضا ہوں۔ لیکن گھر کے کمرے سے شہر کے چاروں طرف، ملک کے تمام حصوں میں نظام مجھے ہر روز مزید مایوس اور فکرمند کرتا ہے۔ میں بوڑھی ہو رہی ہوں اور وہ جوان ہو جائے گا۔ اس کی جسمانی طاقت میری ناتواں قوت سے نہیں سنبھلے گی۔ پریشانی اور تکلیف سے کبھی وہ انگلیاں چٹخاتی۔ کبھی روتی اور کبھی بے چین ہو کر ٹہلنے لگتی۔ مہینوں بعد آج اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ میری بہت اچھی جان پہچان والی تھی۔ ایک ہی علاقے کے رہائشی تھے۔ شروع میں گھروں میں بھی آنا جانا تھا لیکن پھر نسبتاً کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ وہ تین بچوں کی ماں ہے۔ جس میں سے ایک بچہ پیدائشی چلنے پھرنے سے معذور ہے۔ جو اب پانچ سال کا ہے۔ اور جیسے جیسے وہ عمر کے مدارج طے کر رہا ہے۔ ویسے ویسے وہ زیادہ متفکر اور افسردہ رہنے لگی ہے۔ کہتی ہے چھوٹا تھا تو گود میں اٹھا کے اندر، باہر لے جاتی تھی۔ پارک، بازار، گھر میں زیریں اور بالائی منزلوں پر۔ تب دنیا، اس کے رنگ، پھول، مناظر ہم دونوں دیکھ اور محسوس کر سکتے تھے۔ اور اب یوں لگتا ہے کہ ہم دونوں ہی بندھ گئے ہیں۔ وہیل چیئر پر اسے جب باہر لے کے نکلتی ہوں تو سڑک پر فٹ پاتھ یا تو برائے نام ہوتا ہے یا ہو تو اس پر چڑھوں کیسے؟ پارک کے دروازے تک اگر پہنچ بھی جاؤں تو سیڑھیاں پار کر کے اندر کیسے داخل ہوں؟ ریمپس میسر نہیں ہوتے۔ بسوں میں چڑھنے کا بھی یہی حال ہے۔ بچے کو گود میں لے لے کر یہ ساری رکاوٹیں پار کرتی ہوں بلکہ وہیل چیئر دوہری ذمہ داری بن جاتی ہے۔ میں کس کس کو سنبھالوں؟ اسکول داخل کروایا تو یہی مسائل وہیل چیئر چلانے کو کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ اسکول کے مرکزی دروازے سے کمرا جماعت اور ادھر سے کھیل کا میدان، کینٹین تک میرا بچہ نہیں پہنچ پاتا۔ اسے اسکول چھوڑنے کے بعد میں گھر سولی پر لٹکی رہتی ہوں۔ اور واپسی پر کوئی نہ کوئی دل دکھانے والا پہلو اس کے ہمراہ ہوتا ہے۔ بس اس کے بعد اس کے لئے گھر ہی پڑھنے کا انتظام میں خود ہی کرتی ہوں۔ لیکن یہ سب مطمئن نہیں کرتا۔ سوچتی ہوں اگر ابھی سے مجھے کمر درد رہنے لگا ہے تو آگے کیا ہو گا؟ کیا ساری زندگی وہ یونہی الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہو گا اور میں اس کی محبت میں خود بھی تنہا رہوں گی۔

Read more...

قحط زدہ نسلیں

ڈاکٹر خدیجہ وکیل

28/05/2022

میں پندرہ سال کی تھی جب پہلی دفعہ ایک سنڈے میگزین میں پانی کی کمی کے بارے میں ایک آرٹیکل پڑھا تھا۔ جس کی ہیڈ لائن کچھ اس طرح کی تھی کہ مستقبل میں عالمی جنگیں پانی کے لئے ہوں گی۔ اس تحریر کا نہ مصنف یاد ہے نہ کوئی اور حوالہ۔ لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ جنگ یا خبریں اخبار کا ہفتہ وار رسالہ تھا۔ قلم کار نے اس وقت اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں اپنے ڈیم بنانے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا چاہیے ورنہ ہمارے پانی کے ذخائر بتدریج بہت ساری وجوہات کے کارن کم ہوتے جائیں گے۔ آج سے تیس سال پہلے جب میں نے یہ پڑھا تھا تو لگتا تھا پتہ نہیں یہ کس زمانے کی بات ہے۔ ہم تو شاید بوڑھے ہو جائیں گے جب ایسا کچھ ہو گا۔

Read more...