ساحل عدیم، خلیل الرحمان قمر یا معاشرتی زعم
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
04/07/2024
مائیک پکڑے لڑکی کے دائیں طرف ایک اور لڑکی اور بائیں طرف ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ اوپر نیچے بنی حاضرین کی قطاروں میں وہ پہلی قطار تھی۔ سبھی شرکاء لڑکے، لڑکیاں جوانی کی حدوں کو چھوتے تھے۔ نام بتانے کے بعد اس کا کہنا تھا کہ آپ نے خواتین کو جاہل کہا۔ اس لئے آپ کو معافی مانگنی چاہیے۔ دو چار فقروں پر مشتمل اپنی بات میں اس نے یہ بات دو دفعہ دوہرائی۔ کیمرا اس وقت تک صرف حاضرین پر مرکوز تھا۔
لڑکی کی بات کے اختتام پر کیمرا گھومتا ہوا اسٹیج پر رک گیا۔ اور سامنے اسٹیج پر دو مہمان اور ایک میزبان براجمان ہیں۔ شرکاء کی طرف سے دیکھیں تو درمیان میں میزبان (عائشہ جہانزیب) اور الٹے ہاتھ (ساحل ندیم) پہلا اور سیدھے ہاتھ (خلیل الرحمان قمر) دوسرا مہمان بیٹھا ہے۔
الٹے ہاتھ والا مہمان: کس لئے معافی؟
لڑکی: آپ نے خواتین کو جاہل کہا ہے۔
الٹے ہاتھ والا: کبھی طاغوت کا نام سنا ہے؟ سنا ہے؟
لڑکی: نہ، نہیں۔ لیکن ابھی سینکڑوں بار آپ کے منہ سے سن لیا ہے۔
الٹے ہاتھ والا مہمان: آپ نے آج تک طاغوت کا نام نہیں سنا۔ اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ سب سے بڑا۔ نہیں معلوم اسی لئے جاہل کہا اور ساتھ ہی ایک آیت اور اس کے ترجمہ کا حوالہ بھی ٹھک سے کر کے دے دیا۔
لڑکی: میں یہاں خواتین کے حقوق پر بات سننے آئی تھی۔ یہ باتیں نہیں۔ آپ بار بار عورتوں کو جاہل کہہ رہے ہیں۔ معذرت کرنی چاہیے۔
ساتھ ساتھ آوازیں اونچی ہو رہی ہیں۔
الٹے ہاتھ کا مہمان: ہاں! میں معافی مانگتا ہوں کہ میری بیٹی جاہل ہے۔ اکیس بائیس سال کی عمر میں نہیں معلوم اسلام کا سب سے بڑا گناہ۔
لڑکی: بات کاٹتے ہوئے، میں اسلام پر لیکچر سننے نہیں آئی تھی۔ خواتین کے حقوق پر۔
میزبان: آپ چپ کریں، مہمان کی بات پوری ہونے دیں۔
الٹے ہاتھ کا مہمان: اس عمر میں نہیں۔
لڑکی: آپ بات کو کسی اور طرف لے کے جا رہے ہیں۔ معافی مانگیں۔
سیدھے ہاتھ کا مہمان:جارحانہ انداز، پوری بات سنو۔
الٹے ہاتھ کا مہمان: دین میں۔
لڑکی: میں دین پر نہیں۔
سیدھے ہاتھ کا مہمان: تمہیں تکلیف ہے کہ اسلام پر بات ہو رہی ہے۔ یہ کیا طریقہ ہے تمہارا؟ بدتمیزی مت کرو۔
لڑکی: جس طرح آپ کو تکلیف ہے خواتین کے حقوق پر بات کرنے سے۔
میزبان: ایک وقت میں ایک۔ اگلا سوال۔
یہ دس، پندرہ منٹ کا ’ویڈیو کلپ‘ حادثاتی طور پر دیکھنے کو ملا۔ جس نے بہت سے سوالات اور خیالات ذہن میں چھوڑ دیے۔
کچھ لمحوں کی یہ ویڈیو بذات خود شاہد ہے کہ ہماری گفتگو کے معیارات کیا رہ گئے ہیں؟ دلیل اور شائستگی کا نہ ہونا۔ چھوٹے، بڑے کی تمیز کا ختم ہونا، الفاظ کا چناؤ، لہجوں کی تلخی اور تکبر، آوازوں کا دھیما پن غائب، اختلاف رائے میں ایک دوسرے کو سننے کی جرات و ظرف عنقا۔ سبھی شرکاء اس دائرے سے باہر تھے۔
قرآن کی آیات، احادیث کے حوالے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہمارے ہاں عام ہے۔ اور اپنی بات سچ کرنے کو ہم کچھ بھی کرتے ہیں۔ بھلے اس تعلیم کا رتی بھر عکس ہم میں موجود نہ ہو۔ اور اس طرح جاننے اور نہ جاننے والی آیت کا استعمال ہوا۔
کسی چیز یا علمی پہلو سے آگاہ نہ ہونے کو لا علمی، ناواقفیت یا نا آشنائی کہتے ہیں، جاہلیت نہیں۔ خود جس آیت کا استعمال کیا گیا، اس میں علم ’رکھنے والے اور نہ رکھنے والے‘ کے الفاظ ہیں نہ کہ جاہل اور عالم کے۔
جس دین اسلام کا حوالہ بار بار دیا جاتا رہا، جس کا دکھ مہمانوں کو کھائے جا رہا تھا، وہ تو نرمی سے بات کرنے، بھری محفلوں میں کسی کے عیب گنوانے سے اجتناب کرنے، غیر موجودگی میں برائی کرنے سے روکنے کے احکامات دیتا ہے۔ آپ سب تو بھرے مجمعے میں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے تھے۔
مولا نے اگر کوئی خوبی، آپ کو ودیعت کر ہی دی ہے چار سطریں لکھنے کی ہو یا چار باتیں کہنے کی، وہ اس بات کا اختیار نہیں دیتی کہ دوسروں کو آپ جوتے کی نوک پر رکھ لیں۔ تحقیر زدہ بات کریں۔ عزت نفس کا خیال نہ رکھیں۔ جبکہ انبیاء کرام کو بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم تھا۔
کیا ایسے پروگرام ’اسکرپٹڈ‘ اور ریٹنگز بڑھانے کے لئے جان بوجھ کر بنائے جاتے ہیں، تاکہ خود شرکاء، مہمان اور میزبان کو راتوں رات ’ویورشپ‘ مل جائے اور چینلز کو شہرت۔ تو میڈیا کے مقاصد ان گھٹیا حربوں سے زیادہ ہونے چاہیے۔ یہ کافی ’پرانا کھیل‘ ہے۔
کیا ہم کافی بھلکڑ قوم ہیں؟ جن کی یادداشت سے واقعات بڑی جلدی محو ہو جاتے ہیں۔ ورنہ ایک صاحب مہمان تو ہر آئے دن عورتوں اور ہر دوسرے پر نازیبا جملے اور بیانات دینے پر مشہور ہیں۔ گردن کا سریا ان کا سنبھالا نہیں جاتا۔ اور آپ پھر ان کو ’خواتین کے حقوق‘ پر بات کرنے کو مدعو کرتے ہیں۔ اور ایسا ہم بار بار کرتے ہیں۔ بھلے وہ کوئی نامور گلوکار ہو، فیشن ڈیزائنر ہو، ماڈل ہو۔
جس مذہبی اسکالر کو بلایا گیا۔ ایسے کئی ’موسمی مبلغین‘ ہمارے ہاں عام ہیں۔ جو آنا فانا پردہ اسکرین پر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چھا جاتے ہیں اور پھر غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔
کیا کسی پروگرام کے میزبان صرف ’ڈمی‘ ہوتے ہیں؟ جو بس مہمان سے ڈرتے، اس کی آنکھ کی جنبش کی طرف دیکھتے اور اسی کو رام کرنے میں لگے رہتے ہیں؟
کیا اسٹیج پر بیٹھے ’سوکالڈ‘ پڑھے لکھے ماہرین اور جگہ جگہ دوسروں کو آگ لگاتے، ’بلاسفیمی (توہین قرآن و رسالت)‘ کے فتوے لگاتے، قتل کرتے، مارتے، روندتے ’مذہب کارڈ‘ استعمال کرتے جنونیوں میں کوئی فرق ہے؟ جذبات کو جو آگ یہ لوگ اسٹیج پر بیٹھ کر لگاتے ہیں، باقی ہجوم گھر گھر لگاتا ہے۔ اسی سے معاشرے کے سبھی طبقات کے حالات عیاں ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا سوالات ہم سب کو خود سے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم سبھی ہی کسی نہ کسی زعم میں مبتلا دینی، اخلاقی اور معاشرتی حدود کو پار کرتے ہیں۔ اور اوپر سے ہم سب خود کو صحیح بھی سمجھتے ہیں۔ ویسے کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اگر ہم سب کو اپنی اپنی جگہ پر مہذب، درست، باعلم اور باعمل ہونے کا دعوٰی اور غرور ہے تو پھر ہمارے ملک میں اس قدر اخلاقی گراوٹ کیوں ہے؟
برائے نام عالم بے وقعت کیوں ہیں؟
دوسرے مذاہب کا جینا دوبھر کس لئے؟
ہم وطنوں اور ہم مذہبوں سے اتنی نفرت کیوں؟
عورت، عزت اور مذہب کو لے کر اتنے غیر متوازن کیوں ہیں؟
خود سے پوچھیے کیونکہ ایسے سوالات کے آئینے شاید ہم سب کو ننگا کرنے دیں۔