Share
OR

ہمارے سارے مسائل کا حل: ٹھڈے، ڈنڈے، چھٹیاں، جلاؤ گھیراؤ

Dr. Khydija Wakil

رات کے نو بجے جب سارے دن کی تھکن اور بھاگ دوڑ ذہن تک آ جاتی ہے۔ سارا گھر اور اس کے افراد جلد از جلد اپنے آرام دہ اور ذاتی کمروں میں لیٹنے کو جانا چاہتے ہیں۔ اس گھر میں دو بچے اپنی والدہ کے ساتھ معمول سے زیادہ دیر تک کتابیں کھولے بیٹھے تھے کہ امتحانات کا آخری پرچہ وہ اپنی تمام ذمہ داری، سمجھ اور تیاری سے دینا چاہتے تھے۔ اچانک ماں نے موبائل اٹھایا تو کئی واٹس گروپ میں تعلیمی ادارے بند ہونے کی خبر تھی۔ اس نے بے بسی اور ناپسندیدگی سے یہ پیغامات پڑھے اور دل گرفتگی سے اپنے بچوں کی طرف دیکھا۔ اتنی دیر میں اسکول انتظامیہ کی جانب سے بھی ای میل آ گئی جس میں پرچے کی تاریخ تبدیل اور اگلے دن آن لائن کلاس کی اطلاع تھی۔

یوں پورے پنجاب کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ وجہ کسی مشہور نجی تعلیمی ادارے میں کسی بچی کے ساتھ کی گئی زیادتی کی خبر تھی۔ الزام تھا یا شکایت۔ حقیقت تھی یا فریب۔ کچھ معلوم اور ثابت نہیں۔ لیکن بات اتنی دبائی اور نظر انداز کی گئی کہ احتجاج کمرہ جماعت، اور کالج کی حدود سے نکل کر سڑکوں، میڈیا اور گھر گھر پہنچ گیا۔ ہائی اسکول کے طلبا و طالبات کو بجائے سنا جاتا۔ گفتگو و مصالحت و حل کے لئے میز کے گرد بٹھایا جاتا۔ خون کے جوش کو نرمی اور محبت سے دیکھا جاتا۔ اصل معاملے کی تحقیق ہوتی۔ سزا دی جاتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پولیس کا دھاوا بولا گیا۔ مار کٹائی کی گئی، لاٹھی چارج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں۔

اس سے پچھلے ہفتے بین الاقوامی سربراہان کے اجلاس کے لئے ہفتہ اتوار ملا کے کل پانچ چھٹیاں وفاقی اور جڑواں شہروں کو کی گئیں۔ دفاتر، تعلیمی ادارے، بازار، کاروبار سب بند۔ اور اس سے دو چار دن قبل فیڈرل بورڈ کا امتحان تھا اور سواں پل صبح سے ٹریفک نے بند کر رکھا تھا۔ گھنٹوں رش میں امتحانی مراکز جانے کے لئے طلبا اور ان کے والدین پھنسے رہے۔ اور بغیر کسی غلطی اور قصور کے ناکامی ان کے نام تھی۔ جس کے جسمانی، ذہنی، معاشی، معاشرتی اثرات کا اندازہ کسی کو نہیں۔

آئے روز سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کی جنگ میں ملک گیر انقلابی مہمات اور مظاہروں کا اعلان کرتی ہیں۔ اپنے جیالوں کو ہر صوبے سے اکٹھا کرتی ہیں۔ صاحبان حکومت کی حکمت عملی کنٹینرز سے شہروں کے سبھی بیرونی، اندرونی راستے بند کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ یا صوبے بھر کی پولیس اور فوج زور بازو، زور ڈنڈا یا زور ہتھیار مخالفین کو روکتی ہے اور اسکول، کالج، جامعات کو تالے لگواتی ہے۔

اور کوئی وبا پھوٹ پڑے یا کوئی اور ’ایمرجنسی‘ آ جائے تو اس میں تو ہمارے ہاتھ پاؤں چھوٹ جاتے ہیں۔ اور اس کا ایک ہی سنہرا حل کاروبار زندگی معطل۔ سموگ شہروں کو سردیاں آنے سے پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے لاہور تو پوری دنیا میں اس معاملے میں پہلے تین درجوں میں سے کسی ایک پر ہی ہوتا ہے۔ اس دفعہ جنوبی پنجاب کے اور کئی شہر بھی اس کی لپیٹ میں بری طرح آئے ہوئے ہیں۔ سال پر سال گزر رہا ہے۔ ہر گزرتا برس مسئلے کو مزید بڑھا رہا ہے اور ہمارے ہاں اس کا حل سوائے غیر ضروری طور پر تعلیمی اداروں میں تعطیلات دینے کے کچھ نہیں۔

مسائل، اعتراضات، خدشات، واقعات اور حادثات پر گفتگو یا مصالحتی بات چیت کیوں نہیں ہو سکتی؟

ملک کے نجی ادارے اور ہر بڑا ادارہ اب ایک مافیا ہے۔ جس کے لئے ’برینڈ‘ کا نام، مقام، ناک ان زندہ لوگوں سے زیادہ مقدم ہیں جن کی وجہ سے اور جن کے لئے وہ بنتے اور چلتے ہیں۔

وبائیں، بیماریاں، ماحولیاتی ہنگامی صورت حال، سیاسی اختلافات کیا سبھی کا حل پورے ملک کا تماشا بنانا ہے؟ تعلیمی نظام کو مفلوج کرنا ہے؟ اڑھائی ماہ تعطیلات گرما، دو ہفتے سرما کی چھٹیاں، بہار، خزاں کا ہفتہ، ہفتہ اس کے علاوہ۔ ’ویک اینڈ‘ کے دو دن بھی اس میں شمار کریں۔ علاوہ ازیں قومی، مذہبی تہوار و مواقع۔ یعنی تین سو پینسٹھ دنوں میں سے آدھے دن تو پہلے ہی پوری قوم فارغ ہوتی ہے۔ اوپر سے ارباب اختیار کا ہر مسئلے پر جواب و طریقہ کار: یا چھٹیاں، یا بند راستے، یا نفری کا استعمال۔

مختصرا، ہم نئی نسل کو بڑے منظم طریقے سے سست، کاہل اور جاہل بنا رہے ہیں۔ ملکی معیشت کا جنازہ خوب سوچ سمجھ کر نکال رہے ہیں۔ اور بین الاقوامی سطح پر قومی غیرت و خود داری کو تو ویسے ہی گہری نیند کی گولیاں دے دی ہیں۔ اور رہی تہذیب و تمیز اور بات چیت کے راستے تو وہ بھی جلاؤ گھیراؤ کر کر کے دہشت گردی کے ٹیگ کے پیچھے منہ چھپائے کھڑے ہیں۔

2
1
Name
Ahmed1 month ago

Very well said...