اربن پلاننگ میں خواتین کا حصہ کہاں ہے؟
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
28/03/2024
میں بہت تھک گئی ہوں۔ برا بننا نہیں چاہتی لیکن بسا اوقات تھکن، مایوسی، بیزاری اتنی ہو جاتی ہے کہ اچھائی ہاتھوں سے پھسلتی لگتی ہے۔ پکڑنا بھی چاہوں تو ہاتھ نہیں آتی۔ یقین جانو! بہت تکلیف میں ہوں۔ لگتا ہے پورا شہر، سارے خاندان والے، ارد گرد کا ماحول سبھی مخالف ہیں۔ میرا کچھ بھی نہیں۔ جو سہارا دے۔ آسانی بنے۔ اگر یہ امتحان ہے تو میں تو دینے کو تیار ہوں۔ آزمائش ہے تو مولا کی منشا میں راضی برضا ہوں۔ لیکن گھر کے کمرے سے شہر کے چاروں طرف، ملک کے تمام حصوں میں نظام مجھے ہر روز مزید مایوس اور فکرمند کرتا ہے۔ میں بوڑھی ہو رہی ہوں اور وہ جوان ہو جائے گا۔ اس کی جسمانی طاقت میری ناتواں قوت سے نہیں سنبھلے گی۔ پریشانی اور تکلیف سے کبھی وہ انگلیاں چٹخاتی۔ کبھی روتی اور کبھی بے چین ہو کر ٹہلنے لگتی۔
مہینوں بعد آج اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ میری بہت اچھی جان پہچان والی تھی۔ ایک ہی علاقے کے رہائشی تھے۔ شروع میں گھروں میں بھی آنا جانا تھا لیکن پھر نسبتاً کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ وہ تین بچوں کی ماں ہے۔ جس میں سے ایک بچہ پیدائشی چلنے پھرنے سے معذور ہے۔ جو اب پانچ سال کا ہے۔ اور جیسے جیسے وہ عمر کے مدارج طے کر رہا ہے۔ ویسے ویسے وہ زیادہ متفکر اور افسردہ رہنے لگی ہے۔ کہتی ہے چھوٹا تھا تو گود میں اٹھا کے اندر، باہر لے جاتی تھی۔ پارک، بازار، گھر میں زیریں اور بالائی منزلوں پر۔ تب دنیا، اس کے رنگ، پھول، مناظر ہم دونوں دیکھ اور محسوس کر سکتے تھے۔ اور اب یوں لگتا ہے کہ ہم دونوں ہی بندھ گئے ہیں۔ وہیل چیئر پر اسے جب باہر لے کے نکلتی ہوں تو سڑک پر فٹ پاتھ یا تو برائے نام ہوتا ہے یا ہو تو اس پر چڑھوں کیسے؟ پارک کے دروازے تک اگر پہنچ بھی جاؤں تو سیڑھیاں پار کر کے اندر کیسے داخل ہوں؟ ریمپس میسر نہیں ہوتے۔ بسوں میں چڑھنے کا بھی یہی حال ہے۔
بچے کو گود میں لے لے کر یہ ساری رکاوٹیں پار کرتی ہوں بلکہ وہیل چیئر دوہری ذمہ داری بن جاتی ہے۔ میں کس کس کو سنبھالوں؟ اسکول داخل کروایا تو یہی مسائل وہیل چیئر چلانے کو کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ اسکول کے مرکزی دروازے سے کمرا جماعت اور ادھر سے کھیل کا میدان، کینٹین تک میرا بچہ نہیں پہنچ پاتا۔ اسے اسکول چھوڑنے کے بعد میں گھر سولی پر لٹکی رہتی ہوں۔ اور واپسی پر کوئی نہ کوئی دل دکھانے والا پہلو اس کے ہمراہ ہوتا ہے۔ بس اس کے بعد اس کے لئے گھر ہی پڑھنے کا انتظام میں خود ہی کرتی ہوں۔ لیکن یہ سب مطمئن نہیں کرتا۔ سوچتی ہوں اگر ابھی سے مجھے کمر درد رہنے لگا ہے تو آگے کیا ہو گا؟ کیا ساری زندگی وہ یونہی الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہو گا اور میں اس کی محبت میں خود بھی تنہا رہوں گی۔
اسی سے مجھے اپنی ایک ریٹائرڈ سینئر کولیگ یاد آئیں جو چھ ماہ قبل نوکری کی لگے بندھے معمول سے آزاد ہوئیں تھیں۔ تب ان کے بڑے منصوبے تھے کہ وہ سارے کام کروں گی جو آج تک کسی نہ کسی وجہ سے نہیں کر پائی۔ خاص طور پر عبادات تو زیادہ یکسوئی سے کروں گی اور بالخصوص دین کی سمجھ بوجھ پر توجہ کروں گی۔ چہل قدمی کے لئے جایا کروں گی۔ بورڈز گیمز کھیلوں گی، وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ میرے ساتھ مہربان رہی تھیں اور میں نے نوکری کے ابتدائی ایام میں ان کے تجربات سے کافی سیکھا تھا۔
اس لیے ریٹائرڈ ہونے پر بھی ایک ماہ میں کبھی نہ کبھی بات ہوجاتی تھی۔ لیکن ہر دفعہ لہجے کا جوش، جو اوائل دنوں کا خاصہ تھا، دھیما پڑتا محسوس ہوتا تھا۔ میرے استفسار پر بات ٹال دیتیں۔ ایک دن میرے سوال پر کہ کس کس شوق کی تکمیل کر لی؟ کس گیم بورڈ میں مہارت پکڑ لی؟ بڑے بجھے لہجے میں بولیں۔ میری دکھتی رگ کو نہ ہی چھیڑو، بھری بیٹھی ہوں۔ ماحول مجھے زبردستی بوڑھا، بے کار کرنے اور کسی کونے میں لگانا چاہتا ہے۔ نوکری کرتی تھی تو لگتا تھا نظام گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے لئے معاون نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل، فلیکسیبل کام کے اوقات کار نہ ہونا، دفاتر میں لیٹرین، نوزائیدہ بچوں کے کمرے کا نہ ہونا اور ایسے ہی کئی اور معاملات، جن کا علم تمہیں بھی تو ہے۔
لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد تو میری آنکھیں ہی کھل گئی ہیں۔ کچھ فقہ کی کتب کی ضرورت تھی تو قریبی مسجد گئی تو جناب یہ کہہ کر داخل نہیں ہونے دیا کہ خواتین اندر نہیں جا سکتیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین کا تو مسجد میں کوئی سیکشن ہی نہیں ہے۔ امام سے رہنمائی درکار ہو تو عورتیں کہاں اور کس کے پاس جائیں؟ اب نوکری کی ذمہ داری نہیں ہے تو اس رمضان تراویح باجماعت مسجد میں امام کے پیچھے ادا کرنا چاہتی تھی لیکن جناب سبھی قریب کی مساجد میں صرف مرد جا سکتے ہیں۔ عید کی نماز بھی اسی لئے حسرت بن گئی۔
اور ہوا خواری کا تو خوب پوچھا تم نے؟ یا تو پارک ہیں نہیں، اگر دور و نزدیک میسر ہوں تو صنف مخالف کی اجارہ داری۔ کئی بار تصویروں میں انٹرنیٹ پر دیکھا ہے کہ پارکس کے اندر ہی جسمانی اور ذہنی مشقیں کرنے کو کئی بورڈ گیمز اور دوسری مشینیں نصب ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں تو پہلے گھر سے نکلنا مشکل اور پھر پارک تک پہنچنا اس سے زیادہ دشوار اور اگر پارک آپ کے علاقے میں مل جائے تو وہاں خاتون/لڑکی ہونے کے چیلنجز۔ کہ اتنے میں ہی انسان بیزار ہی ہو جاتا ہے۔ اس لئے اب زبردستی گھر میں صبح سے شام کر رہی ہوں۔
اور یاد کرنے پر آؤں تو مجھے اپنی بیٹی کی ایک سہیلی یاد آ گئی جسے میں نے کمرہ امتحان میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ بائیں ہاتھ سے لکھتی تھی لیکن جس کرسی پر بیٹھی پرچہ حل کر رہی تھی اس کا ڈیزائن دائیں ہاتھ سے لکھنے والوں کے لئے بنا تھا۔ تحصیل لیول کے اس امتحانی مرکز میں کوئی اور آپشن دستیاب ہی نہیں تھی۔ میری بیٹی نے بعد میں یہ تذکرہ بھی کیا کہ وہ زیادہ تر گھر میں اپنی امی کی مدد سے پڑھتی ہے۔ ڈاکٹروں کی غفلت سے پیدائشی پیچیدگیاں بنی اور اس کے پاؤں اور آنکھ میں کچھ مسئلہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے بینائی کمزور اور چلنے میں ایک حد کے بعد دشواری ہوتی ہے۔ کالج میں کلاسز مختلف منازل پر ہیں۔ ایک سے دوسری کلاس تک بھاگ بھاگ کر جانا اور سیڑھیاں چڑھنے پڑتی ہیں، جو کہ اس کے لئے کار ناممکن بن جاتا ہے۔ اس لئے وہ کم ہی کالج حاضر ہوتی ہے۔
ایسے ہی کئی کردار بالخصوص خواتین، بچیاں، لڑکیاں آپ کے اردگرد بھی موجود ہوں گے جن کی زندگی چھوٹے شہروں، دیہی علاقوں اور بڑی شہری آبادیوں میں کسی نہ کسی ایسے مسئلے کی وجہ سے محدود ہو گئی ہوتی ہے، جس کا حل وہ خود نکالنے کی جدوجہد اور محنت تو کرتی ہیں لیکن شہروں اور گھروں کے ڈیزائن اور نظام ان کی مدد نہیں کرتے۔ حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ آسانیاں نہیں پیدا کرتے۔ بلکہ ان میں صرف صحت مندوں اور مردوں کو فوقیت حاصل ہے۔ جس کے سبب ملک کی باون فیصد آبادی ابھی تک اس پہلو پر توجہ کی متقاضی و طالب ہے۔