Share
OR

ریس کے گھوڑوں کو گدھا بنانے کی ضد

Dr. Khydija Wakil

مجھے شادی نہیں کرنی۔ ایک دو سال میں اپنا کاروبار کرنا چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں مزید دو کورسز کرنے ہیں۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں زندگی کا سفر شروع کرنے سے پہلے معاشی طور پر مستحکم ہوں۔ میں شادی کی مخالف نہیں لیکن مجھے بس کچھ وقت درکار ہے۔

وہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویٹ تھی۔ گھر کی بڑی اولاد تھی۔ والدین تعلیم کے شعبے سے ہی منسلک تھے اور ان کی زندگی کی سب سے بڑی انویسمنٹ بچوں کی تعلیم، طریقہ سلیقہ اور آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ لیکن ساتھ ہی وہ اب اس کے لئے مناسب ساتھی کے متلاشی تھے۔ صحت کی مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے بروقت اس کے لئے ہمسفر چاہتے تھے۔ باقی سب باتیں ایک طرف لیکن ان کی سب سے پہلی ترجیح وہ انسان تھا جو اسے آگے بڑھنے کی جستجو میں سمجھے، ہم قدم ہو۔ اس کی دماغی صلاحیتوں پر قدغن نہ لگائے۔ انھی باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اس کے لئے بر منتخب ہوا۔ بر دکھاوے کے دوران یہ بات بڑے سادہ، آسان اور واضح انداز میں لڑکے والوں کو پہنچائی گئی تاکہ فیصلہ لینے میں کوئی قباحت نہ ہو۔ اگر اس خیال کے ساتھ ان کی مماثلت ہو تو بات آگے بڑھے۔ جس پر لڑکے والوں کی طرف سے بہت سے وعدے کیے گئے۔ مختصر یہ کہ نکاح ہو کر وہ سسرال آ گئی۔ تین چار ماہ گزرے، تو لڑکی ایک تین سالہ بین الاقوامی وظیفے کے لئے منتخب ہو گئی۔ لڑکے کو چپ لگ گئی۔ ساس خاموش اور سسر نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ مجھے لڑکیوں کا نوکری کرنا پسند ہی نہیں۔ گھر کی چار دیواری ہی عورت کا تحفظ ہے۔ نوکری پیشہ عورتیں شوہروں کی عزت نہیں کرتیں۔ جب ہم نے نوکری نہیں کروانی تو مزید پڑھنے کی کیا ضرورت؟ اس دن سے وہ روز ’ذہنی جنگ‘ اور ’انٹلکچوئیل تھرسٹ‘ کا شکار ہے۔ روزمرہ کے گھریلو ذمہ داریاں اس کی ذہنی استعداد اور خداداد قابلیت سے کہیں کم ہیں۔

وہ بچپن سے ہی مختلف تھا۔ آسمانوں کو چھونے کی باتیں کرنا۔ تاروں پر کمندیں ڈالنے کی خواہشیں کرنا۔ اونچی اڑان بھرنا۔ اس کی الگ ہی ڈگر تھی۔ ٹافی، بوتل، لالی پاپ میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کھانے، کپڑے، لتے، اس کی گفتگو کا موضوع نہیں تھے۔ دوسروں کے بارے باتیں کرنا، کبھی بھی اس کو پسند نہیں رہا تھا۔ وہ تکنیکی کاموں کا ماہر تھا۔ معمول سے دس قدم آگے کا اور انوکھا دماغ تھا۔ گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا نت نئے خیالات پر کام کرتا۔ لیکن جس ماحول میں وہ پل رہا تھا۔ دن رات کرتا تھا۔ سب نالاں تھے۔ دن بھر وقت ضائع کرنے پر تنگ تھے۔ راشن وہ نہیں لاتا تھا۔ گھر کے بلب، لائٹیں، ٹونٹیاں وہ نہیں لگا سکتا تھا۔ پانی کی موٹر خراب ہو جائے تو وہ نااہل تھا۔ گھنٹوں رشتے داروں کے ساتھ بے مقصد نہیں بیٹھتا تھا۔ ہفتہ، ہفتہ بھر کے لئے کسی کے ہاں شادی بیاہ کے لئے کہیں نہیں جاتا۔ دعوتوں، نذرانوں میں غیر حاضر ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جسے سلام کیا جاتا، گھر کے اندر اکثریت اس سے خفا ہے۔

وہ جراح/ سرجن ہے۔ اپنے علاقے کی پہلی نیورو سرجن۔ جھونپڑی میں بھی کسی کے جلتے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیتی تو مولا اپنے کرم سے شفا لکھ دیتا۔ برسوں کی محنت کے بعد اس قابل ہو پائی تھی۔ بہت سی خواتین اور عورتوں کے لئے زندگی کی نوید کہ خاتون طبیب نہ ہونے کے وجہ سے کئی گھرانے اپنی عورتوں کو مرد طبیب کے ہاتھ ہی نہ لگنے دیتے۔ قرب و جوار سے سائل اس سے علاج کے لئے آتے۔ وقت ملنے کے منتظر ہوتے۔ دنیا اس کو ماہر کے طور پر بلاتی۔ اس کے تجربات سے طلبا مستفید ہوتے۔ اور خاندان میں شوہر اس سے صبح تیاری کا خواہاں ہوتا۔ دیر سویر ہونے کی وجہ سے بچوں کے لئے وہ چوبیس گھنٹے ساتھ نہ تھی۔ زمانے کی سرجن، کچن میں جائے تو انڈے سے زیادہ ابال نہیں سکتی۔ کھانا کھلا تو سکتی ہے لیکن انواع و اقسام کے کھانوں سے میز نہیں سجا سکتی۔ بازار جائے تو کپڑوں کے ’کنٹراسٹ اور میچنگز‘ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔ یہ سب کام مددگار کرتے ہیں اور یہی بات اس کی ’اچھی بیوی، اچھی ماں اور اچھی بہو‘ اور باقی گھریلو اچھائیوں پر سوالیہ نشان ہے۔

دیکھیں تو ایسی کئی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ جن کو ہم کسی نہ کسی مخصوص معیار پر جانچتے رہتے ہیں۔ بجائے یہ سمجھنے کہ ہر انسان (مرد و عورت) کی خداداد صلاحیتیں منفرد ہیں۔ جو ضروری نہیں مروجہ روایات اور طریقوں پر چلیں۔ اور پھر سینکڑوں میں وہ جن کی ہمت و استعداد عام سے زیادہ ہے۔ مختلف ہے۔ انھیں پنکھ دیں۔ ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ ہمت بنیں۔ طاقت بنیں۔ گریں تو تھام لیں اور پھر اٹھنے کے لئے سبب دیں۔ کیونکہ رہنما، عالم، مفکر، محقق، معالج، ماہر اور ایسے سبھی کی قابلیتوں کے انجن روٹی پانی سے زیادہ پر چلتے ہیں۔

ہر انسان دوسرے سے علیحدہ اور نایاب ہے۔ ہر کسی کی اپنی اہمیت اور شناخت ہے۔ ہر کسی کی اپنی مہارتیں ہیں۔ انھیں پہچانیں۔ انھیں اس کے مطابق برتنا سیکھیں۔

1
0
Name