اگر کوئی سوئٹزرلینڈ سے پاکستان آ جائے؟
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
12/08/2024
اس دن ہم دفتر سے نکلے۔ شام ابھی دور تھی۔ ہمارے دو مرد ساتھی بھی ساتھ تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ویسے تو موسم گرما تھا۔ لیکن لندن کی گرمی بھی آپ کو ہلکی جیکٹ ساتھ رکھنے کو مجبور کرتی ہے۔ نجانے کب آسمان برس جائے؟ کب دھوپ چمکنے لگے؟ اس لئے ساوتھ پول سے گئے باشندوں کو تو ٹھنڈ لگتی ہے اور ’نارتھ پول‘ والے بے دھڑک پھرتے ہیں۔ ان میں سے دو دنیا کے جنوب (پاکستان) اور دو شمال (سوئٹزرلینڈ) سے تھے۔ سبھی نے گڈ ہوٹل کی طرف جانا تھا۔ چالیس منٹ میں دو ٹرینیں بدل کر پہنچنا تھا۔ پہلا اسٹیشن دس منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ اسی لئے سب اپنے اپنے لیپ ٹاپ والے بیگ کندھوں پر ڈالے چہل قدمی کرتے ہوئے منزل کی طرف گامزن تھے۔
ہم خواتین اور مرد دو دو کے گروپ میں آگے پیچھے چل رہے تھے۔ ہلکی پھلکی باتیں ہو رہی تھیں کہ شمال سے آنے والی نے پوچھا، تمہیں یہاں آنا کیسا لگ رہا ہے؟
جنوب والی: اچھا ہے۔ پہلی دفعہ لندن آئی ہوں تو جو اس کے بارے میں کتابوں میں پڑھا، دوسروں سے سنا، ڈاکومنٹریز، فلموں، ڈراموں اور ویڈیوز میں دیکھا۔ اس کے تجربات خود کر رہی ہوں۔ بے اعتبار موسم، دھوپ چھاؤں کے منظر۔ گرمی، سردی کا امتزاج۔
شمال والی: کیا چیز متوجہ کر رہی ہے؟ جنوب والی: صاف ہوا، دور تک نظر آتا آسمان، سبزہ۔ شہر میں اتنے پودے دیکھ کر دل خوش ہو رہا ہے۔ خود بخود منہ کھول کے سانس لینے اور آکسیجن اندر کھینچنے کو جی چاہ رہا ہے۔ شمال والی: ہوں۔ ٹھیک ہے۔ جنوب والی: کیا آپ خوش نہیں؟ آپ کو کیا محسوس ہو رہا ہے؟
شمال والی: نہیں۔ نہیں ایسا نہیں۔ لیکن درخت کم ہیں۔ میں جب بھی یہاں آتی ہوں تو یہی سوچتی ہوں کہ پودوں کا اضافہ ہونا چاہیے۔ جنوب والی: آنکھیں پھاڑے، کیا واقعی؟ شمال والی: ہاں۔ اس حوالے سے میں یہاں آ کر اپنے ملک کو بہت یاد کرتی ہوں۔
جنوب سے آنے والی کو چپ لگ گئی۔ وہ اسے کیا کہتی کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اسے تو اس کے برعکس لگ رہا ہے۔ وہ اسے بتانا چاہ رہی تھی کہ لندن دنیا میں موجود اربن فارسٹ (شہری جنگلات) میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ جس میں موجود درختوں کا اندازہ اسی لاکھ سے زیادہ ہے۔ برطانوی حکومت اس شہر کو ’فارسٹ سٹی‘ بھی کہتی ہے۔
لیکن سوئٹزرلینڈ کی شہری کیا یہ بات نہیں جانتی تھی؟ جانتی تھی اور بہت اچھے سے پہچانتی تھی۔ لیکن اس کا ملک دنیا میں جنت مانا جاتا ہے۔ جہاں کا معیار زندگی پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ سبز علاقے، سبزہ، پودے، درخت، جنگل، جھاڑیاں، سانس لینے کی طرح شہروں کا حصہ ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں تیتیس فیصد سے زیادہ رقبہ جنگلات کے لئے مختص ہے جبکہ یو کے میں یہ 13 فیصد ہے۔ اسی لئے اسے لندن میں بھی درختوں کی کمی لگ رہی تھی۔ دنیا کا مانا جانا اربن فارسٹ بھی نظر میں نہیں آ رہا تھا۔
ویسے اربن فارسٹ (شہری جنگلات) کیا ہیں؟ شہری علاقوں یا اربن ایریاز میں پرائیویٹ اور گورنمنٹ کی تمام جگہوں پر درختوں، پودوں کی مجموعی تعداد جس میں گھر کے باغیچوں اور پچھلے صحنوں میں لگے پودے بھی شامل ہیں۔ پوری دنیا میں آسٹن (امریکہ)، ٹیجوکو (ریوڈی جینیرو، برازیل) ، جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ)، میڈرڈ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا 2023 میں ’ٹری سٹی آف دی ورلڈ‘ ، اوسلو (ناروے ) مشہور شہری جنگلات میں شامل ہیں۔ شہری آبادیوں میں ان جنگلوں کو اگانے کے کئی طریقوں میں ایک خاص طریقہ میاواکی بھی ہے جس کو جاپان کے ایک پروفیسر اکیرا میاواکی نے متعارف کروایا ہے۔ اس طریقے سے اگائے جانے والے جنگل ہر سال بغیر کسی کھاد اور ادویات کے کم از کم ایک میٹر تک خود بخود بڑھتے ہیں۔ اور بیس سے تیس سال کے عرصے میں ایک گھنا جنگل بن جاتا ہے۔
پوری دنیا جہاں پائیدار ترقی کے فروغ، بڑھتی ہوئی شہری آبادیوں کو قابل رہائش بنانے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے قدرتی جنگلات کو محفوظ بنانے، نئے مصنوعی جنگلوں کی ترویج کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں سبزے کا رقبہ بھی بڑھا رہی ہے۔ شہروں کے اندر اور اردگرد ہر طرح سے ’گرین ایریاز‘ کی بڑھوتری پر کام کر رہی ہے۔
ادھر پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ ہی متنازعہ ہے۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق یہ دو فیصد سے کچھ اوپر ہے جبکہ پاکستان نیشنل انسٹیٹیوٹ کے مطابق یہ پانچ فیصد تک ہے۔ یعنی دنیا کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ جب ملکی سطح پر یہ اعداد و شمار ہیں تو پاکستان میں شہروں کا اندازہ کریں۔ اگر کبھی ان کے ’سیٹلائیٹ یا ڈرون ایریل امیج‘ دیکھیں تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری گلیاں کیسی پودوں کو ترس رہی ہیں؟ پوش کالونیوں کے علاوہ سبھی جگہیں دیواروں کی حدت سے تپتی ہیں۔ نہ صحن باقی رہے نہ لان۔ نہ برآمدے نہ پودے اور مرکزی دروازوں تک آتی چھتیں۔
اور اس وقت جنوب والی یہ سوچتی ہے کہ ان حالات میں اگر سوئٹزرلینڈ سے کوئی اس کے ملک پاکستان آ گیا تو ؟ اور پھر واقعی ایک سال بعد وہی شمال والی لاہور آئی۔ بارہ دن کے قیام میں ماسک لگا کے پھرتی رہی۔ اتنے دن وہ کہیں بے فکری سے پیدل چل پھر کے شہر سے لطف اندوز نہ ہو سکی۔ شہر کے مہنگے ترین ہوٹل میں ٹھہرنے کے باوجود کھڑکی کے پردے کو پیچھے کرنے پر تاحد نگاہ کوئی تازہ نظارہ سامنے نہ ہوتا۔ سموگ زدہ فضا میں وہ بس مروتاً دفتری کاموں سے نکلتی۔
نوٹ: آزادی کے جشن منائیے لیکن اس سے پہلے اپنے شہروں کو پھیپھڑے دیجیئے۔ اربن فارسٹ لگائیے۔