ہمارے شہر، ہماری گلیاں
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
31/08/2024
یورپ جائیں تو سبھی اشارے، دکانوں اور مکانوں کے سارے نام وہاں کی مقامی و قومی زبانوں میں، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ اتریں تو عربی کا راج نظر آتا ہے، ایران کی سیر کو نکلیں تو فارسی کا بول بالا لگتا ہے، انگلستان دیکھنے کا موقع ملے تو انگریزی کی بادشاہت، امریکہ کا دورہ کریں، تو وہی انگریزی لیکن امریکی طرز کی، جاپان میں صرف جاپانی میں ہی لکھا ملتا ہے، ‘جانا ہو تو چین کی طرف چلئے‘ اور پھر چینی زبان کی حکومت دیکھئے۔ ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کئی ترقی پذیر ممالک کی جانب سفر کریں تو ہندی، نیپالی بنگلہ، لنکا یا مقامی زبانیں اور انگریزی سہیلیاں بنی ملتی ہیں، اور پاکستان کے گلی، محلوں، بازاروں میں گھومیں تو کون سی زبان نظر آتی ہے؟ قومی، مقامی یا بدیسی؟
آسٹریلیا، یورپ، یو کے، امریکہ، مشرق وسطیٰ جائیں تو مکان ہوں یا دکان، اسکول ہوں یا دوا خانے، ہوٹل ہوں یا کچھ اور، سب کی تعمیر ایک مقرر حد میں ملتی ہے۔ بالکونیاں، کھڑکیاں، بیرونی سیڑھیاں، چڑھائیاں سبھی اس کی عکاس ہوتی ہیں۔ فرنٹ ایلیویشن میں بھی توازن اور یگانگت ملتی ہے۔ حتیٰ کہ مرکزی دروازوں اور سامنے نظر آتی دیواروں کا رنگ، اونچائی، ڈیزائن سب ایک جیسا ہوتا ہے۔ باہر لٹکے اور آویزاں نام، پتے، سمت والی تختیاں بھی مروجہ قوانین کے تحت سائز، رنگ، اور الفاظ کے مخصوص استعمال پر وضع ہوتی ہیں۔ مقامی اور قومی زبانوں میں لکھی ہوتی ہیں۔
جبکہ اکثر غیر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک جن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ وہاں صورت حال اس سے مختلف ہے۔ جہاں بازاروں میں اسی فیصد تعمیرات اور رہائشی علاقوں (ماسوائے پوش کے ) کے سبھی گھر اپنی حد سے باہر بنے ملتے ہیں۔ آگے کے پکے تھڑوں نے الگ ’پبلک پلیس‘ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یا بالکونیوں نے تو ضرور گلی کے آسمان کو تنگ کر رکھا ہوتا ہے یا ’گرین سپیسز‘ کے نام پر سڑک کے اطراف پر غیر ضروری اور ناحق دعویداری ہے۔ سائن بورڈز اور رنگ برنگی ناموں کی تختیاں کیسی بے ترتیب اور کثرت سے ابل رہی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر چسپاں ہوتی ہیں کہ اصل نام اور معلومات پہچاننا دشوار ہو جاتا ہے۔ اپنے گوشہ عافیت سے باہر نکلیں تو آنکھوں کو طراوت کی بجائے تلخی ملتی ہے۔ رنگینی و سبزہ کی بجائے، ایک دوسرے پر چڑھی بے رنگ، بدحال ’بلڈنگز‘ ملتی ہیں۔
کوڑے کے ڈھیر، شاپر، ڈرم اوندھے پڑے ملتے ہیں۔ بلیاں، کتے اور باقی جانور دعوت طعام اڑاتے ملتے ہیں۔ بارش برس جائے تو انہی سے بو کے بھبھکے اٹھتے سانس گھٹاتے ہیں۔ گیلے اور خشک، نامیاتی، غیر نامیاتی کوڑے کو ’ایٹ سورس‘ الگ کرنے والے طریقے تو ابھی کوسوں دور ہیں۔ اور ہر شہر کے اندرون کے حالات تو اس سے بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ بغیر درختوں کے، تنگ گلیاں۔ چھتوں پر جناتی بل بورڈز کا طوفان، دیواروں پر ’گرافٹی (لکھا ہوا یا تصویریں بنی ہوئیں ) کے خود سے شرماتے نعرے اور باتیں۔ ہر چیز/عمارت دوسرے سے جدا۔ کسی کا کسی سے جوڑ نہیں۔ نہ‘ کنٹراسٹ نہ میچنگ ’۔ ساری ڈویلپمنٹ بے ڈھنگی۔ اپنے آپ میں خودمختار۔ کسی بھی مکمل، مربوط، خوش کن تاثر، پیغام یا احساس کو پیدا کرنے میں ناکام۔
پراپرٹی لائن، بلڈنگ لائن، زبان کی ترجیحات جو جان چکے، ان کے لئے محلے، گلیاں، سڑکیں، شاہراہیں، عمارات، شہر اور دیہات ہی ان کی زبان، ثقافت اور نظریات کے عکاس ہیں۔ ان کی زبانیں کیا ہیں؟ بلڈنگ کنٹرول کیسا اور کیوں ہے؟ قدرت اور اس کے وسائل کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے؟ انسانوں کی بنائی ایجادات و تخلیقات کو قدرتی مناظر کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کرنا ہے؟ صفائی کے بارے میں کتنی آگاہی اور حساسیت کیسی ہے؟ ترتیب اور خوبصورتی کی اہمیت ان کے لئے کیا ہے، کیوں ہے؟ کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کیا طریقے ہیں؟ ’گرین لونگ‘ کے حوالے سے کیا اقدامات ہیں؟ ’لینڈ اسکیپ‘ شہر سے دیہات تک کتنا اہم ہے؟ رہنے کی جگہیں ان کے لئے صرف صبح سے شام کرنے کو نہیں۔ بلکہ ’توانائی کا ذریعہ‘ ہیں۔ ’کوگنیٹو تھیوری‘ کی بنیاد اسی نظریہ پر ہے۔ ’کیون لنچ‘ کی کتاب ’دی امیج آف دی سٹی‘ بھی انھی خیالات پر لکھی گئی ہے۔ کیونکہ جو ہم دیکھتے اور سنتے ہیں اس کے تصویری خاکے انسان کے شعور و لاشعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور ان اچھے، برے، مرتب، بے ہنگم، سبھی خاکوں کے اثرات انسانی ذہنی صحت و سطح پر پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ ہی ’پوائنٹس آف کلچرل شوکیس‘ ہیں یعنی زبان، تہذیب، اخلاقیات، لباس، شہری منصوبہ بندی، سسٹین ایبیلٹی اور اسی طرح کے مقاصد کے بارے میں سنجیدگی کا مظہر ہیں۔
لیکن:
کیا ہمارے محلے ہماری پہچان ہیں؟
کیا ہمارے بازار اچھی اور متوازن ترقی کا پتہ دیتے ہیں؟
کیا جگہ جگہ لگی تختیاں ہماری ہاں بولی جانے والی زبانوں میں لکھی ہوتی ہیں؟
کیا آپ اپنے گھر سے باہر صرف اچھے منظر دیکھنے کو جانا چاہتے ہیں؟
کیا چھوٹے، بڑے گھر کسی ترتیب سے بنے ملتے ہیں؟
کیا گزرگاہوں، سڑکوں پر چلنا آسان ہے؟ ہوا، روشنی کا گزر ہے؟
کیا ہم بھی اوپر ذکر شدہ کسی تھیوری سے متفق ہیں؟
کیا ہم بھی ’کیون‘ یا اسی طرح کے نظریات کو صحیح سمجھتے ہیں؟