Share
OR

لڑکوں کو داماد بنتے ہی کیا ہو جاتا ہے؟

Dr. Khydija Wakil

کھانا گرم کروا کے بھیجا تھا؟ کیا چارپائیوں کا انتظام نہیں ہو سکتا؟ نیچے فرشی نشست پر کیسے سوئیں گے؟ بستروں کی چادر اور تکیوں کے غلاف گرم موسم کے مطابق کرو اور لحاف نئے دو۔ فلاں بہن کے شوہر تو صرف کمبل لیتے ہیں۔ یار صبح ناشتے میں تازہ گھر کے پراٹھے اور دودھ پتی بنوانی ہیں۔ گیزر بھی نہیں ہے۔ انھیں ٹھنڈے پانی سے منہ، ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔ کم از کم کل نہانے کا پانی گرم کروا دینا۔

سارا خاندان شادی پر جمع تھا اور میزبان نے کسی کو بلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میکہ، سسرال، دوست، احباب، محلے دار، ہمسائے، حتیٰ کہ شادی شدہ بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں اور ان کے گھر والے۔ اور وہ اپنے خاندان کے ہمراہ جب سے آیا تھا۔ سب اسے اسی طرح ہلکان ہوتے دیکھ رہے تھے۔ کچھ کزن یار، دوست اسے پرسکون رہنے کا کہہ رہے تھے۔ کچھ حیرت سے تکتے تھے اور کچھ خاموش تھے کہ ان میں اکثر خود اسی دوڑ میں کبھی نہ کبھی پڑے رہتے ہیں۔ لیکن اس کا یوں فکرمند ہونا پھر بھی اچنبھے کی بات تھی۔ وہ جو خود ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ اکلوتا ہے اور یہ زعم اس کے اردگرد رہنے والے سبھی نے جی جان سے اس کو دیا ہے۔ خدا نے خوش الحانی دی ہے جس کا اسے خوب ادراک ہے۔ خوبصورتی، اچھے قد کاٹھ سے قدرت نے نوازا ہے اور اس کا غرور اس کے ہر انداز میں جھلکتا ہے۔ ایک ہی ہونے کی وجہ سے جو والدین کے وسائل ہیں، ان کا وہی کار مختار ہے۔

یعنی سب کچھ مولا کی دین۔ لیکن جو صفات خود پیدا کرنی ہیں اس میں صفر۔
نرمی، رواداری، خوش اخلاقی، معافی اور درگزر ناپید۔ مہمان بنے، تو جو پکا ہے وہ نہیں کھانا۔ بات کرے تو خود کو اعلیٰ سمجھ کر۔ جو دوسروں کو نوازے لیکن چار طنز کر کے۔ جو جہاں جائے، چار لوگ ساتھ رکھے، سب کو اپنے پیچھے دوڑائے۔ تو وہ جب یوں پریشان ہو رہا تھا تو حیرانی تو بنتی تھی ناں۔ کسی سمجھدار نے جب سبھاؤ سے پاس بٹھا کر کہا کہ انسان جو میسر ہے اسی میں رہے تو بہتر ہے۔ دیکھ لو جو ایسا کر رہے ہیں، چین سے ہیں۔ پھر یہ کون سا تمہارا گھر ہے۔ خود مہمان ہو۔ تو آگے سے وہ لاڈلا بولتا ہے کہ چاچا جی! اگر یہ نہ کروں تو بہنوئی واپس جا کر بہنوں کو بہت طعنے دیتے ہیں کہ اپنے خاندان میں لے جاتی ہیں اور پھر کسی کو ان کا خیال بھی نہیں آتا۔ اور نتیجتاً وہ آ کر ہمیں باتیں سناتی ہیں۔ ہمارے سامنے رونے روتی ہیں۔ یعنی گھر کے چار دامادوں اس ’نک چڑھے‘ کے کس بل وقتی طور پر نکال دیے تھے۔ جس کا بدلہ وہ اپنے سے سسرال سے لیتا تھا۔

برصغیر کی ہوا کا اثر ہے یا نسل در نسل چلتی اندھی روایتوں کا کہ اکثر رشتوں کو غیر متوازن کر دیا گیا اور ہوا بنا لیا گیا ہے بالخصوص داماد، بہو اور ساس کے رشتے کو۔ نوجوانی میں ایک رشتے کے بزرگ کو اپنی بیوی سے ہمیشہ کہتے دیکھا کہ فلاں داماد آئے تو لازمی گوشت پکایا کرو، ورنہ گلے بنتے ہیں۔ اور جب بیوی گاؤں میں رہنے، قریبی بازار پاس نہ ہونے یا دیر سویر کی مجبوری بیان کرتیں۔ تو وہ گھر کی انڈے دیتی قیمتی مرغی یا اکلوتا مرغا ذبح کرنے کی تجویز رکھ دیتے۔

پچھلے دنوں ایک واقعہ دیکھنے کو ملا۔ بیاہی بیٹی شوہر اور سسرال کے قریبی دس افراد کے ساتھ میکے آنے کی اطلاع ظہر کے وقت دیتی ہے اور جاڑے کی شدید سرد شام، مغرب کے قریب آن پہنچتی ہے۔ سرحد کے قریب ایک قصبہ جہاں کے چولہے شام کی اذانوں پر مدھم اور پھر آہستہ آہستہ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ اور مکین لحافوں میں دبک جاتے ہیں۔ گھر میں نہ کوئی باہر سے سامان لانے والا، نہ فریج میں اتنے افراد کے لئے کوئی گوشت، سبزی۔ خیر گھر میں موجود ماں نے دو چھوٹی بیٹیوں کے ہمراہ آنے والوں کے لئے بر وقت دسترخوان مرغی کی کڑاہی، چنا پلاؤ، کباب، سلاد، رائتہ، ایک سبزی اور میٹھے سے سجا دیا۔ بعد میں خالص دودھ پتی بھی پیش کی گئی۔ لیکن مہمانوں بالخصوص داماد اور سمدھی کا منہ ہی بنا رہا۔ اور بیٹی نے کہہ بھی دیا کہ کتنی دفعہ بتایا ہے کہ ان کے آنے پر بکرے کا گوشت بنا لیا کریں۔ کیا فائدہ اتنے کھانوں کا۔ ایک ہو لیکن کسی معیار کا ہو۔ یا کم ازکم مچھلی ہی فرائی کر لیتے۔ اب گھر جا کر اگلے کئی ماہ جلی کٹی سننا پڑیں گی۔

اور زمانہ طالب علمی کی ایک دوست تو بھولتی ہی نہیں جس کے والد دیار غیر میں مقیم تھے۔ پانچ بیٹیوں کے خود کفیل۔ بیٹا سب سے کافی چھوٹا۔ برسوں سارا خاندان ادھر ہی مقیم رہا تھا۔ پھر بچیوں کی پڑھائی اور بعد میں تین کی شادی کی وجہ سے بیوی، بچے ادھر اپنے ملک ہی لوٹ آئے اور وہ ادھر ہی درہم کمانے کو رہ گئے۔ جنہوں نے دامادوں کی توقعات آسمان پر پہنچا دیں۔ بہنیں اور ان کے شوہر ماں کے گھر آتے۔ ادھر پریشانی سے اس دوست کی حالت غیر ہوتی کہ خوب آؤ بھگت کے بعد بھی کوئی اس بات پر خفا ہوتا کہ دوسرے دامادوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اور کسی کو الگ مخصوص کمرا نہیں دیا گیا۔ کسی کا تکیہ سخت رہ جاتا۔ کسی کی پسند کا کھانا نہ بنا ہوتا۔ اور ساتھ آئیں بیویاں میکہ کا حال تو کیا پوچھتیں۔ ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر شوہروں کی جی حضوری میں لگی رہتیں اور ماں کے دل کو پنکھے لگے رہتے۔

اور ایسا ہمارے ہاں بیشتر گھرانوں میں ہو رہا ہے۔ غریب غربا سے لے کر امرا تک۔ داماد کے آنے پر یا تو میکے والوں کے حلق خشک رہتے یا ماہانہ بجٹ دہائیاں دیتے ہیں۔ بیٹیوں کی درگت بنتے دیکھنا ایک الگ تکلیف دہ منظر ہوتا ہے۔ باوجود اس کے داماد کی سسرال اور بیوی سے توقعات اور میزبانی کا گراف کم ہوتا ہے نہ وہ مطمئن ہوتا ہے۔ اور بیوی اور اس کے والدین تو اس امتحان کے جلد رخصت ہونے کے منتظر ہوتے ہیں۔

بات بڑی مختصر سی ہے کہ داماد ہونا کوئی تمغہ نہیں ہے جو آپ نے اپنی قابلیت سے کمایا ہو۔ اور جس کی قیمت آپ ہر کسی سے وصول کرتے پھریں۔ یا حاکم بنے، دوسروں کی جان عذاب کریں۔ یہ تو ایک تعلق ہے، رشتہ ہے جسے محبت، تکریم، اپنائیت اور بے تکلفی سے نبھائیں گے تو باہمی عزت ملے گی۔ فون کر کر کے آپ کو سسرال آنے کا کہا جائے گا۔ بنا کہے آپ کا پسندیدہ کھانا احترام اور خیال سے بنے گا۔ اور آپ کی واپسی پر بیوی کے والدین خود اداس ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر آپ کے لئے ایک اور آشیانہ ہو گا جہاں پر وقت بے وقت آپ کی آمد کسی کو گراں نہیں گزرے گی۔ تو پھر کیا کچھ سدھرنے کے ارادے ہیں؟

ساتھ ماؤں اور لڑکیوں سے بھی ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ انسانوں کو انسان کی طرح ہی پرورش کریں۔ انھیں دیوتا نہ بنائیں۔

3
0
Name