صورت کسی کی، عمرہ اماں کا
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
09/04/2025
’توں اداس نہیں ہوندی، میں تاں بڑی اداس آں‘ (تو اداس نہیں ہوتی؟ میں تو بہت اداس ہوں ) ۔
فون بوتھ کے ایک طرف یہ آواز ابھرتی تو دوسری طرف خاموشی ہوتی۔ اظہار کرنے والی تو کہہ کر ہلکی ہو جاتی۔ اور جدھر خاموشی ہوتی ادھر یہ الفاظ دل پر لکھے جاتے۔ ان مٹ رہتے۔ ہفتے میں ایک مرتبہ جامعہ سے گھر بات ہونے پر وہ یہ یا اس سے ملتا جلتا جملہ سنتی۔ سو روپے کا کارڈ ڈالنے پر زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ گفتگو ہو سکتی تھی۔ فاصلے زیادہ تھے، پیسے کم اور کارڈ مہنگے۔
شادی سے پہلے سات سال وہ گھر سے باہر رہی۔ تعلیم، نوکری، عملی زندگی کی جدوجہد۔ ایسے کئی ہفتے آئے اور گزر گئے۔ فاصلے کم نہ ہوئے لیکن چار سال کی پڑھائی کے بعد کمائی نے تیسرے سال ملنے والے موبائل کا بل برداشت کرنا شروع کر دیا۔ فون بوتھ اور اس میں ڈلنے والے کارڈ سے چھٹکارا مل گیا۔ آوازیں ہفتے میں ایک بار کی بجائے دو تین دفعہ سننے کو ملنے لگیں۔ بہت کچھ آہستہ آہستہ بدلنے لگا لیکن اگر کوئی نہیں بدلا تو وہ وہی اظہار تھا۔
’توں اداس نہیں ہوی، میں تاں بڑی اداس آں‘ ۔
ہاں یہ ضرور ہوتا کہ اپنے بہت تھوڑے ماہانہ جیب خرچ میں سوائے پڑھائی اور کھانے کے کم از کم اخراجات کر کے وہ کچھ بچاتی۔ اور جب بھی وہ اس بڑے شہر کے کسی بہتر شاپنگ مال اور دکان گئی ہوتی تو وہ آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگتی۔ تب پرس سے وہ سینتے ہوئے پیسے نکلتے، ضرورتیں پس پشت ڈالی جاتیں۔ اور کوئی خوبصورت کڑھائی والا دوپٹہ، کوئی بریسلیٹ، کوئی ملائم خوشبو دار نفیس سوٹ خریدا جاتا۔ یا جب بھی جامعہ کی طرف سے تفریحی یا تعلیمی دورے پر لے جایا جاتا۔ تو کبھی سوات سے پشمینہ کی شال لاتی، کبھی باغ سے اونی جرسی۔ کبھی کلر کہار سے اس آواز کی پسند کا سرمہ پیسنے کو ہاون دستہ۔ اور جب مہینے بعد گھر کا چکر لگتا تو ان کو پیش کیا جاتا۔ جو وہ بہت محبت سے وصول کرتیں۔
اماں کو اس نے کبھی بے جا فرمائشیں کرتے نہیں دیکھا تھا۔ شاید اکیلے کمانے والے کی ذمہ داریوں سے آگاہ تھیں۔ یا نو افراد کے خاندان کے خرچوں کا ادراک تھا۔ یا اکلوتے ہونے کی کسک۔ یا والدین کے نہ ہونے کا احساس۔ بس یہ گھر اور بچے ان کا کل جہان تھا۔ یہ اسے تب لگتا تھا جب وہ ابھی خود بچی اور طالب علم تھی۔ جیسے جیسے عمر کی منزلیں طے ہوتی گئیں اور وہ معاشی طور پر آزاد ہوتی گئی۔ تو کئی فیصلے وہ خود بھی کرنے لگی۔ کئی ضرورتیں اور خواہشیں وہ بنا کہے سمجھنے اور نبھانے لگی۔ اماں کو بیڈ پر میٹرس کا دل تھا، وہ آ گیا۔ تانبے، پیتل اور سٹیل کے قیمتی برتن استعمال کرنے والی کو چینی کا ڈنر سیٹ بھاتا تھا۔ وہ الماری میں سج گیا اور ایسی ہی تھوڑی بہت نازک نازک فرمائشیں۔
لیکن جس بات کی تڑپ ان کو ان مادی چیزوں سے سوا تھی وہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی زیارت تھی۔ حج یا عمرے کی تمنا تھی۔ جس کا ذکر ان کی زبان نہیں الفت سے ہوتا تھا۔ حج ٹرانسمیشن کی جھلکیوں، اور سارا سارا دن چودہ انچ والے ٹیلیویژن پر حج دیکھنے سے ہوتا تھا۔ ٹیپ پر کئی کئی گھنٹے نعتوں اور قوالیوں پر بے خبر ہونے سے پتہ چلتا تھا۔ جس عقیدت سے وہ اکیس دن حجاز سے تحفتاً آئے سرمے کو آب زم زم چھڑک کر اور درود پاک پڑھ کر پیستیں، اس سے ہوتا تھا۔ اور
لبیک اللھم لبیک، ان الحمد و النعمة۔ کا ورد مسلسل کرنے سے ہوتا تھا۔
خیر جب تک ابا کی استطاعت بنی وہ پورے دائیں حصے کا فالج لے کر بستر کی ہو گئیں۔ بس اتنا چل پاتیں کہ سہارے سے واش روم تک چلی جاتیں۔ اور بٹھا دیں تو بیٹھ کر کرنے والے کام ایک ہاتھ سے کر لیتیں۔ لیکن اٹھنے، بیٹھنے، لیٹنے، نہانے غرض ہر حاجت کے لئے مدد کی ضرورت ہوتی۔ اور یوں نو سال گزار کر وہ داعی اجل سدھاریں۔
اماں چلی گئیں اور ان کا دھیان اس کے لا شعور میں جاگ گیا۔ اس کا دسترخوان، اس کا صفائی کے لئے خبط، اس کی ذاتی خیال کے لیے باقاعدگی اماں کے عکس کے طور پر جھلکنے لگا۔ اور جب اسے خانہ کعبہ اور در نبی ﷺ جانے کا اذن ملا تو اماں پھر سے زندہ ہو کر اس کے ساتھ سفر کرنے لگیں۔ حد تو یہ ہوئی کہ مدینے سے مکے کی ٹیکسی میں بیٹھی تو ڈرائیور نے ’لبیک! اللھم لبیک‘ کا ورد چلا دیا۔ ساڑھے پانچ گھنٹے کے اس سفر میں آدھا وقت اسی کی ٹیپ چلتی رہی۔ وہ بھی اسی کا حصہ بنی رہی۔ اور یادداشت میں اماں کی حج کے دنوں کی تیاری اور یہی آوازیں اٹھتی رہیں۔ وہ مکہ پہنچی، عمرہ مکمل کیا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ کسی نے آنے سے پہلے اسے نصیحت کی تھی کہ تمہاری طبیعت کئی روز سے خراب ہے۔ ہڈیاں تمہاری سدا کی نازک۔ بچے بھی ساتھ ہیں۔ ایک عمرہ کر لو تو اللہ کا کروڑ شکر ادا کرنا کہ توفیق دی اور مکمل کروایا۔ نمبروں کی دوڑ میں نہ پڑنا۔ اور وہ تو ویسے بھی مقابلے کی دوڑ کا حصہ نہیں بنتی تھی۔
عمرہ کرنے کے اگلے دو دن وہ پھر ناساز رہی لیکن ایک خیال جو اس کے ساتھ چپک گیا کہ اماں کے لئے عمرہ کرنا ہے۔ بے چینی حد سے سوا تھی لیکن ہمت ختم۔ نیت زبردستی بنتی جا رہی تھی۔ یوں ستائیسویں کی طاق رات آ گئی۔ رش اس قدر کہ مولا کی پناہ۔ سبھی کو پھر میقات کے لئے پندرہ کلومیٹر مکہ سے باہر جانا تھا۔ رات گیارہ بجے ٹیکسیوں کے لئے بڑی خواری ہوئی۔ جسمانی ہمت کم ہوئی لیکن نیت مزید پختہ ہوتی گئی۔ مقام میقات پر احرام باندھا۔ معلوم ہوا کہ یہ جو خوبصورت بسیں نظر آ رہی ہیں، حاجیوں کو خانہ کعبہ تک لے جانے کی سروس ہے۔ ٹکٹ لیا بلکہ چھوٹے بیٹے کا ٹکٹ بھی نہیں تھا۔ رب نے آسانیاں دکھانا شروع کر دیں۔ اور وہ ان آسانیوں کے لالچ و حوصلے میں مطاف میں آ گئی۔ طواف کے سات چکر کاٹے، خانہ کعبہ قریب رہا۔ دو نفل ادا ہوئے۔ سعی کی منزلیں پوری کیں۔ وہیں سحری کی۔ آب زم زم پیا۔ با جماعت نماز فجر ادا ہوئی۔ چھت پر پہنچ کر پھر عشق کے چکر لگتے رہے۔ اور جب وہ تھکن سے بے دم، دل سے مطمئن حرم کے ایک کونے میں بیٹھی تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا:
’میں وی اداس آں‘
بائیس سال بعد فون بوتھ کے ایک جانب سے ہونے والے اظہار کا جواب اس وقت زبان سے ہو گیا تھا۔
میں وی اداس آں
لبیک! اللھم لبیک