Share
OR

آموں کے بغیر ملتان

Dr. Khydija Wakil

وہ چار دن بعد کام پر آیا تھا۔ پہلے دو دن موبائل بند رہا۔ تیسرے دن بات ہوئی تو بہت بجھا بجھا لگا۔ اتنا کہ آگے سے یہ بھی نہیں کہا جا سکا کہ پودے، گھاس، درخت سب پانی اور صفائی کو ترس رہے ہیں۔ بھاگ بھاگ کر کچھ کوشش تو کر رہی ہوں۔ لیکن باقی ذمہ داریوں کے ساتھ اتنے بڑے حصے کو پانی دینا بھی بمشکل ہو پاتا ہے۔ شدید گرمی صرف ایک دن کے لئے بھی غیر حاضر ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ خیر اگلے دن شام میں آیا تو باغیچے میں اس سے ملاقات ہوئی۔ آواز سے بھی زیادہ پریشان۔ مایوس، زبردستی بولنے پر خود کو آمادہ کرتا ہوا۔

کیا ہوا؟ گھر میں کوئی مسئلہ ہے؟
نہیں۔
تو پھر کہاں غائب تھے؟ پودوں کی حالت دیکھو اور اپنی بھی۔
باجی! بہت نقصان ہوا ہے۔ بہت نقصان۔
کیا کچھ بتاؤ گے؟
اس ہفتے جو طوفان آیا ہے۔ اس نے بڑا پریشان کیا ہے؟
گھر کی عمارت صحیح ہے؟ گری تو نہیں۔
اللہ کا شکر ہے۔
تو پھر؟

باجی آپ کو بتایا تھا ناں کہ اپنی زمین پر کھیتی باڑی کرنے کے ساتھ اس دفعہ دو آموں کے باغ بھی ٹھیکے پر لئے ہیں۔

تو؟

باجی! طوفان نے سب ختم کر دیا۔ تقریباً سارا آم ہی گر گیا۔ پھل تو ایک طرف کئی درخت پورے کے پورے زمین بوس ہو گئے۔

اوہ ہو۔ اس طوفان نے تو سب ہی کو ہلا کر رکھ دیا۔ مری سے چلتا ہوا جنوبی پنجاب تک پہنچا اور سب کچھ ہلا گیا۔ بہرحال تم پیٹیاں بنا کر پکنے کے لئے رکھ دو اور بیچو۔

وہ بھی نہیں ہو سکتا ۔ ابھی تو گھگھڑ (گٹھلیاں ) بھی نہیں بنے۔ نہ وہ امبیاں رہیں نہ آم۔
کچا آم ہی بیچ دو۔ چٹنیوں، اچار کے لئے لوگ خرید لیں گے۔

باجی اچاری آم تو نہیں ہیں۔ اور پھر میری طرح سبھی باغوں والوں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ کتنا آم یوں استعمال ہو سکتا ہے؟ پچاس روپے کلو کے حساب سے منڈی میں ’ریٹ‘ ہو گیا ہے۔ گرے آموں کو اٹھوانا، مزدوری، بوریاں، گتے کے ڈبے، لکڑی کی پیٹیاں، بازار تک لے جانے کا کرایہ ان پیسوں سے بہت زیادہ ہے جو کلو کے پیچھے ملنے ہیں۔ ایک تو پہلے ہی خسارہ اوپر سے مزید خرچے۔ نہ ہمت ہے نہ فائدہ۔ ہم تو اس مرحلے تک آتے آتے بھی مقروض ہو چکے ہوتے ہیں۔ امید ہوتی ہے کہ باغ تیار ہو گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

پھر کیا کرو گے؟ اتنا پھل ضائع کر دو گے؟

باجی میں نے تو علاقے میں ہم سے بھی مالی طور پر کم ہیں ان کو مفت میں لے جانے کا کہہ دیا ہے۔ آئیں اور جو جتنا لے کے جا سکتا ہے، لے جائے۔ پھر بھی ضیاع کا ازالہ نہیں۔ نہ ہی ساری مقدار اکٹھی کی جا سکتی ہے۔ سمجھیں طوفان اور آندھی نے صرف ہمارے آم نہیں رولے، ہمیں بھی رول دیا ہے۔ ان کے ہمراہ ہماری امیدیں بھی گر گئی ہیں۔

تسلی تو کیا دیتی؟ طوفان کے سبب پریشان دل اس ابتری پر دل مزید بھاری ہوا۔ اور آم بننے کا پورا عمل ذہن میں گھومتا رہا۔

بہار آتے ہی (ویسے کیا اب بہار آتی ہے؟ ) ۔ چلیں تھوڑی تصحیح کے ساتھ کہ جب نام نہاد سرما کے بعد پھول کھلتے، کونپلیں پھوٹتی اور شگوفے نکلتے ہیں۔ تو دوسرے پودوں کی طرح آم کے درخت بھی سردی کی لمبی نیند سے جاگتے ہیں۔ نئے پتے اور شاخیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ بھورے ’بور‘ سے درخت بھرنے لگتا ہے۔ جو روز کی بنیاد پر تھوڑا بڑھتا ہے۔ اور اسی میں سے کہیں کہیں پھل نظر آتا ہے۔ بہت چھوٹا۔ آہستہ آہستہ ’امبی یا کیری‘ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ بغیر گٹھلی کے۔ پھر کچی سفید گٹھلی بنتی ہے جو دھیرے دھیرے سخت ہوتی جاتی ہے۔ کیری سے آم بننے کا سفر طے ہوتا جاتا ہے۔ لوئیں چلیں تو مٹھاس بنتی ہے۔ بڑے کہتے تھے کہ اچاری آم میں انھی دنوں جالا بنتا ہے۔ تبھی وہ استعمال کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ جب پھل اپنی ایک خاص شکل اور جسامت پکڑ لیتا ہے تو لٹکے لٹکے ہی رنگ بھی بدل کر گہرے سبز سے ہلکے سبز اور پھر پیلاہٹ لیتا ہے۔ اور یوں فروری کے آخر سے شروع ہونے والا عمل جون کے آخر تک مکمل ہوتا ہے۔

اور بچپن میں جب کبھی آموں کے موسم میں ہلکی سی آندھی بھی چلتی تو ابا اپنے دوست کا نام لے کر کہتے۔ مولا کرم رکھنا، ورنہ ’بور‘ گر کر پھل کی معیار اور مقدار دونوں متاثر ہوں گے۔ حالانکہ ان کے دوست سرکار کے نوکر تھے اور زمینیں بھی رکھتے تھے۔ آمدنی صرف باغوں پر منحصر نہیں تھی۔ ہر سال دوستوں یاروں کو ’دعوت آم‘ پر بلاتے۔ بس آم اور کچی لسی۔ جو جتنا چاہتا، کھاتا، سیر ہوتا اور لطف لیتے گھر واپسی کی راہ لیتا۔

اب سے چھ، سات برس تک بھی عمدہ سے عمدہ آم پچاس سے ساٹھ روپے کلو دستیاب ہوتا تھا۔ باغ میں جائیں اور اپنی مرضی سے پیٹی تیار کریں۔ سات سو تک آرام سے من پسند پیٹی بنوائیں۔ آم کی مختلف اقسام چونسہ، سفید چونسہ، انور رٹول، دسہری، کالا چونسہ وغیرہ بھی لمبے عرصے تک میسر ہوتے تھے۔

آم کے باغ زرعی زمین کی قربانی، شہروں میں افقی ڈویلپمنٹ، علاقوں کے بڑھوتری منصوبوں کے نہ ہونے، غیر قانونی تجاوزات اور شدید موسمیاتی تبدیلیوں نے ہڑپ کر لئے۔ جس کے اثرات کم از کم یہ ہیں کہ:

ہمارے شہر اپنی اس پیداوار سے محروم ہو رہے ہیں جو ان کی پہچان ہیں جیسے سرگودھا مالٹے سے، ملتان آموں سے، کوئٹہ سیبوں سے، سکھر کھجوروں سے۔

کسی بھی طوفان، آندھی، سیلاب کی صورت میں ہم آدھ پکے، کچے یا پوری طرح تیار پھلوں سے کچھ بھی اور کرنے اور انھیں محفوظ کر کے مفید طریقے میں لانے سے قاصر ہیں۔ جس سے قیمتی اجناس جوتیوں میں بٹتی ہیں۔

بار بار کے یہ دھچکے زمیندار، کسان اور کاشت کار کو مایوس اور مجبور کر رہے ہیں کہ وہ زرعی زمین کو بھول جائیں۔

اس طرح کی ناگہانی میں کسی زراعت، کھانے، ذخیرہ اندوزی کا کوئی حکومتی ادارہ متاثرین تک نہیں پہنچ پاتا۔ جو ان کا حکومتی وسائل اور تعاون پر عدم اعتماد پیدا کرتا ہے۔

بہانے، شکایتیں، شکوے لوگوں اور اداروں کا وتیرہ بنتا جا رہا ہے۔ حل نکالنا اور اس کو لاگو کرنا مشکل بلکہ ناممکن لگنے لگا ہے۔

کاش ہم سمجھ سکیں کہ ایک مالی کا رونا، دراصل ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر بروقت ہم نے بحیثیت فرد، اور قوم اپنی سوچ اور اعمال نہ بدلے، تو اپنی کپاس سے بنی نرم لان، تازہ دریائی مچھلی، اصلی گھی، دودھ، دہی کی طرح میٹھے اور رسیلے ملتان کے آموں کو بھی ترسیں گے اور تبرک کی مانند چکھیں گے۔

5
1
Name
Rashid Khan1 month ago

This blog paints a true picture of aftermath of a disaster.