اباجی اور ان کی زراعت سے محبت
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
18/06/2025
شادی کے چار سالوں میں ایک شہر، دو گھر وہ بدل چکے تھے۔ وجہ نوکری تھی۔ وہ ابھی جوان تھے۔ پہلی پہلی نوکریوں کی محنت اگلی بہت بہتر مواقعوں کی صورت ان کے سامنے آ رہی تھیں۔ اس لئے وہ ’رسک اور مشقت‘ سے نہیں گھبراتے تھے۔
ایبٹ آباد سے اسلام آباد ان دنوں، دونوں ہی اب سے زیادہ خوشگوار تھے۔ تیسرا گھر اسلام آباد ایکسپریس وے پر راولپنڈی کی ایک پرانی لیکن اچھی رہائشی کالونی میں تھا۔ جس کے نچلے حصے میں وہ میاں بیوی اور ایک چار سالہ بیٹا رہتے تھے۔ سامنے گیراج کے ساتھ پانچ فٹ کا ’سیٹ بیک‘ اور پیچھے بھی چھوٹا سا پکا صحن تھا۔ علاوہ ازیں باورچی خانے کے اندر ایک دروازہ چار ضرب چار فٹ کے ایک آنگن کی طرف کھلتا تھا۔
اس شہر میں ہی اسے معلوم ہوا کہ پودوں کا شوق ہونا بھی دارالحکومت میں ایک محنت طلب اور تھوڑا مہنگا ہے کہ کرائے کے گھروں میں عموماً کچی زمین تو میسر نہیں ہوتی کہ کیاریوں میں کچھ اگا سکیں۔ لان بھی ایک عیاشی ہے۔ تو جو سر پھرے اس دلچسپی میں رہتے ہیں۔ پہلے گملے خرید کر لاتے ہیں اور پھر ان میں بھرنے کو مٹی۔ وہ بھی ہر ہفتے نرسری جاتی۔ تب مہران گاڑی پاس ہوتی تھی۔ اس کی چھوٹی ڈگی اور پچھلی سیٹ پر جو کچھ اور جتنا رکھا جاتا۔ وہ دونوں میاں بیوی بچے کے ہمراہ گھر لاتے۔ کبھی دو گملے، ایک بوری مٹی، کچھ پودے۔ کبھی صرف گملے انھی سے تیار کروا کے۔ اور کسی ہفتے کچھ بھی نہیں۔ گھر کی جتنی بڑی، چھوٹی پلاسٹک کی بوتلیں ہوتیں وہ انھیں کاٹتی، ان میں پودے لگاتی۔ چھوٹی بوتلوں کو پینٹ کرتی۔ شیشے کے جار، بوتلیں سجاتی ان میں منی پلانٹ رکھتی۔
شروع کے کچھ سال مددگار بھی نہیں تھی۔ تو وہی، مالی بھی ہوتی۔ کبھی ایک مٹر کی بیل چل پڑتی۔ کبھی ٹماٹر ابھی لگتا کہ پودا جل جاتا۔ لیموں کے پھول سارے جھڑ جاتے۔ پودینہ تک نہ اگتا۔ لیکن وہ پھول، پودوں، اور سبزی لگانے سے مایوس نہ ہوتی۔
اسی تیسرے گھر میں ابا آٹھ گھنٹوں کا سفر کر کے آئے تھے۔ مہمان خانے کا دروازہ پچھلے صحن میں بھی کھلتا تھا۔ تھکن تھوڑی اتری تو ایک صبح جب وہ پلاسٹک کی بوتلوں اور کیاریوں میں لگے پھولوں اور پودوں کی گوڈیاں کر رہی تھی۔ تو وہ بھی ادھر دروازے میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ اور یوں مسکرائے جیسے کسی دیوانے کا خواب ہو۔
ان چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں کیا اگے گا؟
یہ سب کچھ تو زمین میں صحیح بڑھتا ہے۔
فلاں گملے کی مٹی سخت ہو رہی ہے۔ پہلے اسے پانی چھڑکاؤ۔ نرم ہو تو پھر گوڈی کرو۔
اس طرح خواہ مخواہ خود کو کھپا نہ لو۔
ویسے یہ پودا تو بہت اچھا چل رہا ہے۔
ملے جلے ایسے جملے گفتگو میں شامل ہوتے رہتے۔ جو ان کی پودوں سے محبت، فطرت اور محدود جگہ اور شہری ماحول میں در آنے والے خدشات اور مشکلات کا عکس ہوتے۔
ابا بنیادی طور پر کسان تھے۔ کھیتی باڑی ہی ان کے آبا و اجداد کا پیشہ تھا۔ بڑے بیٹے ہونے کے ناتے تعلیم کے ساتھ ساتھ کاشت کاری میں معاونت ان کے ذمے تھی۔ گاؤں ان کا سب کچھ تھا۔ پھر تعلیم کے بعد شہر نوکری ہوئی تو پہلے خود اور پھر رفتہ رفتہ بیوی بچوں کو بھی شہر لے آئے۔ لیکن چھٹی کا دن وہیں گزرتا۔ جو زمینوں پر جانے سے شروع ہوتا اور پھر گاؤں کی آبادی آتی اور گھر والوں سے ملتے۔ مجھے بھی ابا کے ساتھ یہی ایک دن والا دورہ پسند تھا۔ جہاں ہم مل کر کھیتوں میں فصلیں دیکھتے۔ سایہ دار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھتے۔ جو زمین کاشت کر رہا ہوتا ابا اس سے حالات واقعات پوچھتے، مسائل سنتے، مشورے دیتے۔
شہر میں گورنمنٹ کی طرف سے انھیں گھر ملا۔ کالونی میں ملے گھروں میں بھی انھوں نے گھر کے سامنے باہر جڑے دو پلاٹوں میں سے ایک پر موسمی سبزیاں اگانی شروع کر دیں۔ فجر سے دفتر جانے سے پہلے کا مناسب وقت ان کی دیکھ بھال میں گزرتا۔ ساتھ ننگے پاؤں گھاس کی اوس زدہ نرم کونپلوں پر صبح کی سیر بھی ہوتی۔ جو پیداوار ہوتی وہ ہمسائے اور محلے کے گھروں تک وقتاً فوقتاً جاتی۔ جس نے عملاً سبھی کو متاثر کیا۔ اور یوں تقریباً سارے گھروں کے پلاٹوں پر کچن گارڈننگ ہونے لگی۔ تازہ سبزیوں کا تبادلہ ہونے لگا۔ صبح میں مردوں کی اور دوپہر میں خواتین کی رونق لگی رہتی۔ ہم بچے غیر ارادی، غیر رسمی طور پر اس سب کا مشاہدہ کرتے اور سیکھنے کے عمل کا حصہ بن جاتے۔
چھ سات سال بعد وہ وفاقی دارالحکومت سے صوفیا کے شہر میں آ گئے۔ سبب وہی روزگار۔ آموں، فالسوں کی زمین۔ انھیں باغوں سے گھرے ایک کرائے کے گھر میں رہنے لگے۔ گھر بڑا اور آگے پیچھے لان پر مشتمل تھا۔ اسلام آباد سے رخصت ہوتے ہوئے وہ کتنے گملے، پودے، منی پلانٹس ان کی سجی سجائی کئی بوتلیں وہ تحفتا پودوں سے پیار کرنے والوں کو دے آئی۔ اور آدھا ٹرک پودوں کا ساتھ لائی۔ کڑی پتہ، لیموں، کئی بیلیں۔ جو زمین ملتے ہی وہاں منتقل کر دی گئیں۔ کئی پھل دار پودے نئے خریدے اور لگائے گئے۔ ابا سمیت جو بھی آتا، وہ کرائے کے گھر پر اتنے خرچے سے منع کرتا لیکن وہ اسے صدقہ جاریہ کی مد میں ڈالتی اور خوش ہوتی۔
پھر ساڑھے چار ماہ کے اندر انھیں اپنا گھر مولا نے نواز دیا۔ انھیں آموں کے درمیان۔ پچاس فیصد باغیچہ۔ جس میں اندر باہر اس نے پھلوں، پھولوں کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بالکونیاں، پوری فرنٹیج، سبزیوں کی کیاریاں، آم، آڑو، کچنار، انار، امرود، مسمی، مالٹے، فروٹر، لیموں، کڑی پتہ، دھنیا، پودینہ، پالک، جھمکا، بوگن ویلیا، چمپا، چنبیلی وغیرہ وغیرہ۔ جب وہ مالی کے ساتھ مالی اور مٹی کے ساتھ مٹی بنی ہوئی ہوتی اور ابا آتے تو اکثر کہتے اتنی سبزی اور پھل ہونے ہیں کہ اس نے منڈی بھیجا کرنے ہیں۔
اور کل جب وہ ان کے لئے لمبے اور گول بینگن اور دوسہری آم بھیج رہی تھی۔ اور گرمی سردی انگور کے ڈبے، آم اور موسمی سبزیاں جب میکے، سسرال، مددگاروں اور محلے میں تحفتاً جاتے ہیں تو ابا کے کہے الفاظ کی بازگشت ہوتی ہے۔ اور وہ چپکے سے دل میں کہتی ہے کہ منڈی تو نہیں جاتے لیکن جہاں بھی جاتے ہیں، محبت سے جاتے ہیں۔ ابا کے اندر کا کسان اس کے اندر جی رہا ہے اور خوش ہے۔