اوکھے پینڈے
بائیسویں قسط
جب سے ان کے جانے کا فیصلہ ہوا تھا، لڑکی کی ایک ہی خواہش تھی کہ پترا جائیا مسجد دیکھنی ہے۔ اور اس بات کو وہ نجانے گھر سے منزل تک پہنچتے ہوئے نجانے کتنی بار دہرا چکی تھی۔ مسجد ایک دوسرے قریبی شہر پترا جائیا میں تھی۔ جو کے-ایل(کوالمپور) سے 25 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع ایک پرسکون، کم آباد علاقہ ہے۔ ملک کا وفاقی، انتظامی دارالحکومت ہے۔ 'انٹیلیجنٹ گارڈن سٹی' مانا جاتا ہے۔
تئیسویں قسط
وہ بچہ جس کے آنے کی نوید انھیں اپنی زندگیوں میں ایک 'جمبو بریک' لگی تھی۔ ہموار ہوتے معمول 'سنگ ریزوں' کی نذر ہوتے لگے تھے۔ ابتدائی دن پریشانی، ڈپریشن اور منفی سوچوں نے کھا لئے۔ پھر حالات سے سمجھوتے کی کیفیت طاری ہوئی۔ اس کے بعد جو ہے، جیسا ہے کے نظریئے کے تحت بین الاقوامی سفر کئے، گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھائیں،
چوبیسویں قسط
افریقہ جاتے ہوئے ہجرت کرنے کا جو اعلان ہوا تھا۔ اس پر کافی گفتگو ہو چکی تھی۔ جو بھی تھا، دونوں کے درمیان فیصلے سنائے نہیں بلکہ کئے جاتے تھے۔ فیصلہ باہمی اتفاق سے ہی ہوا تھا لیکن لڑکی کے کچھ تحفظات تھے۔ ملک کے دارالخلافہ میں تعلیم، ڈویلپمنٹ، ایکسپوزر، تفریح، موسم سبھی کے مواقع نسبتا بہترین تھے۔ بلکہ بڑے بچے کا اسکول عمدہ تھا۔ علاوہ ازیں پی-ایچ-ڈی کی ریسرچ ابھی کرنا باقی تھی۔
پچیسویں قسط
ملتان جنوبی پنجاب کے دو بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ لیکن جوں جوں آپ وفاق سے دور اور وسطی پنجاب سے ہٹتے ہیں، پنجاب کی ترقی کے سارے دعوے جھوٹے لگنے لگتے ہیں۔ جامعات ہوں یا اسپتال، سڑکیں ہوں یا رہائشی کالونیاں، بازار ہوں یا دفاتر، پارک ہوں یا مزار۔ ان کے مواقع، ماحول، مزاج اور سہولیات
چھبیسویں قسط
ہجرتیں بہت کچھ سکھاتی ہیں جیسے اللہ کی حکمتیں, رویوں کی لچک، تنوع کی اقسام وغیرہ۔ نگر نگر کے سفروں نے سمجھایا کہ مولا بے نیاز ہے، کسی کا محتاج نہیں۔ جس نے ہر جگہ اور انسان کے ہمراہ کچھ ایسا اچھا جوڑ دیا ہے جس کی بدولت اس کا کڑوا پن پینا اور برداشت کرنا مجبوری ہے۔
ستائیسویں-اٹھائیسویں قسط
اچھا 2018 کے پہلے مہینے کی سردیوں میں وہ جن حالات میں وہ نئے گھر میں آئے۔ تو اس سال جو ڈبوں میں بند ہوا، وہ اس کو کھلنے میں کئی رکاوٹیں آئیں۔ لڑکے نے پہلے دن سامان رکھوایا اور دفتری کاموں کے لئے ایک ہفتے کے لئے سندھ روانہ ہوا۔ پیچھے رہ گئے مزدور جو سارا دن لکڑی کا کام کرتے، گیراج کی ٹائلیں لگاتے، ملحقہ پلاٹ جو لان کے لئے مختص تھا، کی دیواریں کھڑی کرتے، مالی اس کی مٹی برابر کرتا۔
انتیسویں قسط
یونیورسٹی آف ساوتھ ویلز، آسٹریلیا کی زمین پر دو ہزار چھ کے بعد وہ پہلی دفعہ ایک طالب علم بن کر اترا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے وہ دو ہزار تین میں یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور سائنس میں آیا تھا۔ تب بھی پیسے بہت کم تھے اور خواب بڑے۔ ابھی بھی نوکری سے چھٹی بغیر تنخواہ کے ملی تھی۔ لیکن اعلی تعلیم کی چاہ سلامت تھی۔ وظیفے کی رقم اس کے چھ مہینوں کے خرچوں کے لئے کافی تھی لیکن پیچھے خاندان تھا، جس کی ذمہ داریاں اس کے ہمراہ تھیں۔
تیسویں قسط
چار پہیوں کی گاڑی ایک دفعہ خراب ہو گئی۔ اگرچہ گرما کی چھٹیاں تھیں اور بیٹے کو روز اسکول چھوڑنے، لانے، لے جانے کی ذمہ داری بھی نہیں تھی۔ لیکن راشن، سبزی، تھوڑا بہت میل ملاپ، باہر کے ایمرجنسی کے کام اور تحقیقی ذمہ داریاں ذرائع نقل و حمل مانگتی ہیں۔ وہ تو سبھی کے پوچھنے پر یہی کہتی تھی کہ شوہر گھر نہ ہو تو بس گاڑی چلتی رہنی چاہیے۔
اکتیسویں قسط
اس سیریز کی سلسلہ وار قسط ہر ماہ کے پہلے دو ہفتوں میں قارئین تک پہنچتی ہے۔ اور لکھنے والے پر یہ ذمہ داری ایک مستقل گھنٹی کی صورت بجتی رہتی ہے۔ لیکن یہ گھنٹی بھی اس دفعہ کارگر نہ ہوسکی۔ قلم اٹھانے میں جھجھک تھی۔ مشکل اور جمود کا شکار تھی۔ بے چین اور مضطرب تھی۔ یہ قسط جان بوجھ کر التوا کا شکار تھی۔ شائد ماوں کے مرنےکے بعد قسطیں کیا
بتیسویں قسط
دو تین ماہ کی غیر متوقع، جان لیوا بیماری ان دونوں سمیت ان کے بچوں کو بھی کچھ مزید انسان بنانے کی طرف لے گئی تھی۔ جب وہ اس کی صحت یابی پر شکر گزار ہو رہے تھے۔ عرصے بعد معمول کی جانب لوٹ رہے تھے۔ کہ کانوں میں خبریں پڑنے لگیں کہ چین میں ایک نیا وائرس آگیا ہے۔