اوکھے پینڈے
جھلکیاں
ڈگریوں میں one of the highest ڈگری, ان دونوں کی اب تکمیل کے مراحل میں ہے. اور پاکستان کےایک بہت اچھے ادارے سے ہے. چھ سال کا یہ عرصہ کیسا گزرا اور کیسے گزارنا چاہیئے, سوچا اس پر بات کرنی چاہیئے. کچھ آنکھوں دیکھی, دل پر بیتی, جسم پر گزری کیفیتوں کی کہانی رقم کرنی چاہیئے.
پہلی قسط
منزلوں کے نشان پانے کے لئے بنیادوں کو کھودنا پڑتا ہے. معراج تک پہنچنے کے لیے طائف جیسی آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے. خوابوں کی تعبیر سمجھنے کے لئے بیجوں کو نمو دینا ہوتا ہے. جن کی سینچائی برسوں پہلے کہیں نہ کہیں وہ ماحول کرتا ہے. جن کو وہ خواب دیکھنے والے ہر لمحہ اپنی سانس, آنکھ, کان اور دل سے جی رہے ہوتے ہیں
دوسری قسط
خوابوں کے راستے وقت کی کھٹنائیاں طے کرتی ہیں. اور سب سے بڑی مشکل کم ہمتی اور ناکامی کا خوف ہے جو کسی کو بھی ابھرنے اور گرنے سے اٹھنے نہیں دیتا. دوسری زیادہ اہم رکاوٹ تھکن سے گھبرا کے مسلسل چلتے رہنے سے منہ موڑنا ہے. خرگوش کی رفتار سے ایک ہی دفعہ دوڑنے کی بجائے کچھوے کی طرح پیہم کوشش ہی مقابل کو چت کرتی ہے.
تیسری قسط
ہر ختم ہوتا لمحہ کسی نئی ابتدا کی نوید ہوتا ہے. موت کے منہ تک جا کر واپس زندگی کا ذائقہ چکھنا اکثر و بیشتر نئی کہانیوں کا جنم ہوتا ہے. تقدیر کی طرف سےانوکھی راہوں کا اشارہ ہوتا ہے. جن کا سمجھنا بسا اوقات انسانی عقل سے ماورا ہوتا ہے. لیکن اگر کبھی آپ کو ایسا موقع ملے تو اسے پہچاننے کی کوشش کریں.
چوتھی قسط
کامیابی کو پانے کے جو مروجہ اور عام پریکٹسز ہوں, آپ اگر ان کو کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ سیڑھی کے آخری سرے تک پہنچ نہیں پائیں گے. یا آسمان کی وسعتیں آپ کے حصے میں نہیں آ پائیں گی. حالات کی ڈگمگاتی کشتی میں اس بات کا یقین رکھیں کہ آپ کا رب نا انصافی نہیں کرتا. وہ عادل بھی ہے اور منصف بھی. تبھی تو غریب کی کٹیا میں بھی ہیرا جنم لیتا ہے
پانچویں قسط
نئے پڑاؤ بہت سے ان دیکھے, ان سوچے چیلنجز لاتے ہیں جن کا حاصل انوکھے تجربات, انہونے ذائقے, اور مختلف قسم کی آگہی پر ہوتا ہے. سمندر کے بارے میں کتنی ہی معلومات آپ کے پاس ہوں. کیسی ہی کہانیاں آپ کی یادداشت میں محفوظ ہوں. کیا کیا کیفیات سمندر دیکھنے والوں نے بیان کی ہوں لیکن وہ سب اس احساس کے برابر نہیں ہو سکتیں جو آپ نے اپنا پہلا قدم سمندر کے پانی کو چھوتے ہوئے
چھٹی قسط
یہ بڑی حقیقت ہے کہ جن نئی منزلوں اور سفروں سے انسان جھجھکتا اور ڈرتا ہے. انھی اندیشوں سے ایسی نسبتوں اور رفاقتوں کا آغاز ہوتا ہے جن کے اثرات آپ کی حیات میں کئی جہتوں کو متعارف کرواتے ہیں. آپ اپنے پورے جیون میں بے شمار پڑاؤ ڈالتے ہیں. کئی راہ گزروں سے گزرتے ہیں. بہت سی جگہوں اور شہروں میں قیام کرتے ہیں. لیکن ان میں سے ثبات کسی کو نہیں.
ساتویں قسط
والدین کے گھونسلوں سے اڑان بھرنے والوں کو ان دیکھے چیلنجزز کا سامنا کرنا پڑتا ہے. صرف اپنے پروں پر اڑنے کا فن آنا ایسی مہارت نہیں کہ جس پر بھروسہ کر کے آپ پوری دنیا سے لڑ سکیں. پر ہلانے کے علاوہ وہ تربیت آپ کی زاد راہ ہوتی ہے جس کو قطرہ قطرہ آپ کے ماں باپ اور ماحول آپ کے اندر ڈالتا ہے.
آٹھویں قسط
ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ۔ اور جس نے اللہ پر بھروسہ کیا، پس وہ (اللہ) ہی اس (شخص) کے لئے کافی ہے۔ اگر کسی کے یقین پر یہ بات نقش ہو جائے تو زندگی کبھی نا امید نہیں لگتی اور بندہ خاک انسانوں کو خدا بنانے سے بچ جاتا ہے۔ وسیلے ڈھونڈنے نہیں پڑتے۔ چاپلوسیاں اور منتیں کرنا نہیں پڑتیں۔ بلکہ ہر مشکل مرحلے میں رہنمائی کو کئی مہربان خود آپ کا ہاتھ پکڑنے کو وقت و حالات سامنے لے آتے ہیں۔
نویں قسط
کٹھن وقت کو باحسن گزارنے کا صرف ایک ہی نسخہ ہے۔ محنت، صبر، چلنا، تیز، آہستہ, مشکل، آسانی، خوشی، اداسی سے۔ بھلے خرگوش بنیں یا کچھوے۔ فرق تسلسل اور نیت سے آتا ہے۔ پھل دونوں پر ہی لگتا ہے لیکن میٹھا اور دیرپا اثر پرخلوص عملوں کے حصوں میں ہی آتا ہے۔ محنت کامیابی کی کنجی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ ہر ایک کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ سبھی محاورے ان کے لئے سچ ثابت ہوتے ہیں۔ رب کی سبھی باتوں پر عین الیقین ہونے لگتا ہے۔