Share
OR

مصنوعی ذہانت کے دور میں ملنے والا پیام نامہ

Dr. Khydija Wakil

آج جیسے ہی کام کی کرسی سنبھالی
لیپ ٹاپ کی بتی جلائی
کئی ونڈوز کھلتی گئیں
ای میلز کی کھڑکی میں
ایک نیا پیغام تھا
پردیسی بیٹے کا
دو ماہ کے بعد
تین سطروں والا

بیٹے کے مشین کو
دئیے گئے 'پرامپٹ'
کی بنیاد پر
مشین نے سوچا
مشین نے لکھا
مشین نے پہنچایا

:جسے میں
،نہ ہاتھ میں پکڑ سکتا ہوں
نہ سینے پر رکھ کر
،بند آنکھوں سے محسوس کر سکتا ہوں
نہ کتاب کے صفحات میں رکھ کر
،برسوں اس خیال کو پال سکتا ہوں
،نہ بٹوے میں رکھ کر دل سے لگائے رکھ سکتا ہوں
،نہ ڈبے میں بند کر کے یاد کی طرح سینچ سکتا ہوں
نہ جسے باغ، دفتر، دالان کہیں بھی جیب سے نکال کر
،کبھی بھی کھول کر دیکھ سکتا ہوں
، نہ لبوں سے چھو سکتا ہوں
نہ سونگھ کر خود میں اتار سکتا ہوں۔

:جس پر
،نہ مٹے آنسووں کے نشان ہیں
، نہ بدلے قلم کی رنگ بدلتی سیاہی
نہ وقفے وقفے سے لکھے
، الفاظ کی نشاندہی
نہ پانی جذب کئے بجھے حروف۔

میں بھی ضرورتا
مجبورا
عادتا
ایسے ہی کئی خطوط
ہر ماہ لکھتا ہوں۔
:لیکن
وہ کاغذی نامے
مجھے بے حد یاد آتے ہیں۔
جو میری روح میں بسے ہیں۔
میری جاں سے قریب ہیں۔

جو اب لکھے ہی نہیں جاتے۔
جو اب کبھی ارسال نہیں ہوں گے۔
جنہیں کوئی ڈاکیے سے موصول نہیں کرے گا۔
جن کے لئے کوئی 'پوسٹ باکس' کسی گھر کے باہر نہیں
لگے گا۔
جن کے لئے ٹکٹیں اب کبھی نہیں چھپیں گی۔
جو اب ماضی کا ایک قصہ ہیں
،ڈھول
،بانسری
،عید کارڈز
،نیلی سیاہی
،نب والے پارکر کے قلم
کی طرح۔

اور میں اسی سلگتے درد کے ساتھ
،سوچتا ہوں
مصنوعی ذہانت سے
،فاصلے تو مٹ گئے
،وقت تو بچ گیا
مشکلیں تو سہل ہو گئیں۔

مگر ساتھ ہی
وہ چپکے سے
،جذبوں کی گرمی
،لمس کی خوشبو
،پیار کے نشان
،انتظار کی لذت بھی
مجھ سے
لے اڑی ہے۔

آسانی
سہولت
نزدیکیوں
کے نام پر
مجھ سے میرے پیاروں کی طرح
میرے خط بھی
بچھڑ گئے ہیں۔

6
1
Name
Fariha Tariq3 weeks ago

True