Share
OR

ڈھکوسلہ

Dr. Khydija Wakil

اسپتال کی لمبی راہداری کے
ایک کمرے 'آپریشن تھیٹر' کے باہر
میرا خاندان جمع ہے۔
پریشان، بے چین
،دعائیں کرتے
،منتیں مانگتے
،مضطرب
،ادھر سے ادھر چکر کاٹتے
طبیبوں سے بھاگ بھاگ کر
میرا پوچھتے۔
،روتے
میری زندگی کے لئے ہاتھ پھیلاتے۔

میں جس کے اوپر ماہرین، معاونین
جھکے
پھر سے ایک ننھی جان کو
میرے پیٹ سے باہر نکال رہے ہیں۔
بے ہوشی میں
جس کی بابت میرے سرہانے کھڑا
بے ہوش کرنے والا ماہر بتا رہا ہے۔
نیم غنودگی میں
کچھ غیر واضح آوازیں بھی سماعت تک آتی ہیں۔
بیماری، تکلیف، بےزاری کے باوجود
میں زندگی کے لئے لڑ رہی ہوں۔

میں جو 'پانچ سالوں' میں
'چار مرتبہ' چیری گئی۔
کاٹی گئی۔
اسی طرح کے تختوں پر
خون بہاتی رہی۔
اور 'ماں' کہلائی گئی۔

جس نے اس سے پہلے
چھ سال
ساس سے 'بانجھ پن' کے طعنے سنے۔
سسر سے 'بیمار بہو' کے لقب ملے۔
جیٹھانیوں نے 'بنجر' ہونے کی باتیں کہیں۔
نندوں نے طنز کے نشتر چلائے۔
شوہر کا ترحم و خاموشی سہی۔
رشتے داروں نے دل دکھاتے زخم دئیے۔
ماں باپ نے ذلت کے بعد
ہر بار ہاتھ پکڑ کر 'اپنے گھر'
رخصت کیا۔
بہن نے ہر ناراضگی پر
'صبر' کا درس دیا۔
بھائی نے ہر تلخی پر
'گھر بساو' کی نصیحت کی۔
،اور خود میں ڈگری یافتہ، کماو
'محبت' کے جھانسے میں
روز پچھلا بھلا کر
'بے ہمتی' کرتی گئی۔

:لیکن اس دفعہ مجھے معلوم ہے کہ
،باہر جو سب ہیں
،اور اندر میں
،ایک عورت
،ایک لڑکی
،ایک انسان
،ایک بیٹی
،ایک بہن
،ایک بیوی
،ایک بہو
کے بچنے کے لئے دعاگو و خواہش مند نہیں
بلکہ
'ان چار بچوں کی 'ماں
کے بچنے کے لئے ہلکان ہیں۔

5
1
Name
Naseem Akhtar 1 month ago

Very true. Keep it up