پردیسی کی بیوہ
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
11/08/2025
میں نوجوانی کے سن میں داخل ہوئی
خوشبو، مہندی، چوڑی، پائل،
زیور، کپڑے،
سجنا، سنورنا
خود کے لئے بھانے لگا۔
جس کے لئے میں نے
ایک چھوٹا لکڑی کا ڈبہ بنایا۔
پیار سے رکھا۔
خیال سے استعمال کیا۔
دلار سے بھرا۔
بالوں میں لگانے والی پنیں، انگوٹھیاں،
آویزے، بالیاں،
کریم اور غازے،
پراندے، ٹیکے۔
پر جب بھی لگایا،
ماں نے کہا،
بیاہ کے بعد،
کنواریاں سادہ ہی بھلیں۔
سہاگن بنی تو
میرے ساتھ وہ میرا عزیز لکڑی کا ڈبہ
جہیز میں آیا۔
شوق اور وقت نے اسے اور بھرا۔
ڈبے سے چھوٹے سے سنہری صندوق میں بدلا۔
سنگھار میز پر سجایا۔
صرف ایک سال تمہاری رفاقت میں
اسے کھولا، پہنا، برتا۔
پھر ظالم پیٹ کے
قاتل تقاضے،
کمائی نے تمہیں پردیسی بنایا۔
بعد اس کے
آنکھ کا کاجل،
ہونٹوں کی لالی،
گالوں کا غازہ،
کان کے جھمکے،
کلائی کے کنگن،
ناک کا لونگ،
گلے کا لاکٹ،
ہاتھ کے رنگ،
پازیب کی جھلک،
سب مشکوک ٹھہرے،
باتیں بنیں،
نگاہیں اٹھیں۔
تو میں نے وہ ارمانوں بھرا
سنہری صندوق الماری میں رکھ کر
تمہارے انتظار میں مقفل کر دیا۔
چار ساون، چار ہاڑ،
چار پوہ، چار مگھر
گزر گئے۔
میں سہاگن امید کی ڈور سے بندھی رہی۔
اور آج دیار غیر سے،
بے وطنی میں تمہاری
حادثاتی موت کی خبر آئی۔
لاش دروازے پر اتری۔
اور میں نے چپکے سے اٹھ کر
خواہشوں اور چاہتوں کے سنہری صندوق کو
الماری سے نکال کر
پچھواڑے میں قبر کھود کر
اس پر مٹی ڈال دی ہے۔
میری آنکھوں کی طرح،
میری سجنے کے سارے شوق اور بہانے بھی
بنجر اور ویران ہو کر
سوکھ گئے۔
The way you explained the topic is excellent!
آپ نے بات کو بہت سادہ اور واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
Very informative and easy to understand, thanks for sharing.