آو کچھ جھوٹی باتیں کریں
ڈاکٹر خدیجہ وکیل
16/08/2025
افق پر ڈوبتے نارنجی سورج کے سامنے
لہروں کے خاموش، پرسکون اتار چڑھاو کے ساتھ
پانی کے سبک بہاو کے درمیان
ہوا کے دوش پر گھاس کی مدھم سرسراہٹوں کے بیچ
دریا کے دوسرے کنارے پر
پل کے پاس
وہ دونوں ہاتھ تھامے
ایک سالہ بچہ گود میں لٹائے
ساکن، مجسم تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
مسکراتے، ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔
کہ ہم:
ہمیشہ محبت کے گیت لکھیں گے۔
ایک دوسرے کے لئے دور آسمان پر ٹمٹماتا آخری ستارہ توڑ کر لائیں گے۔
ماہتاب کی دودھیا سفید روشنی ہمارے عشق کی گواہ بنے گی۔
تاحیات ایک دوسرے کو کافی ہوں گے۔
کوئی ظالم سماج ہمارے رشتے کا رقیب نہیں ہو گا۔
نرم نگاہیں، وفاداری، حدت بھرے لمس تاقیامت ایک دوجے کے لئے رکھیں گے۔
بھوک کے عفریت کو انسیت کا قاتل نہیں بننے دیں گے۔
دور گگن پر اپنا الگ دیس بسائیں گے۔
اس جہاں دلنواز میں ماسوا ہمارے کوئی اور نہ ہوگا۔
وعدوں کے ہنڈولے میں جھولتے رہیں گے۔
انھی ایفا کرنے میں دل و جان لگائیں گے۔
ہمارا آشیانہ خوابوں کی طرح حسین ہوگا۔
کبھی غلط فہمیوں کی گرم ہوا اسے نہ چھوئے گی۔
ہمارے کھیت سدا آباد رہیں گے۔
زیتون، گلاب، لیونڈر، چیریز کی کھیتیاں ہمیشہ سونا اگلیں گی۔
ہماری نسلوں کی آزاد سانسوں پر کبھی کوئی قابض نہیں ہو گا۔
ہمارے کارخانے پہلے سے چوگنی پیداوار دیں گے۔
ہماری غیرت قرض کے لقموں سے گروی نہیں رکھی جائے گی۔
ہمارے وطن راکھ میں نہیں بدلیں گے۔
ہمیں کبھی زبردستی مہاجر اور پناہ گزین نہیں بننا پڑے گا۔
ہماری اولادیں ہمارے سامنے مزید پھلے پھولیں گی۔
موت کے ظالم پڑاو کبھی ہمیں جدا نہیں کریں گے۔
اس دوران پیچھے کہیں:
بے آواز،
ان دیکھا
پانی بپھرا،
سکوت بھری لہریں وحشی بنیں۔
طوفان اٹھا،
پتھر ہلے۔
اور تیز ریلے
ان تینوں کو ایک لمحے میں نگل گئے۔
ادھر نارنجی آفتاب نے،
رات کی چادر میں منہ چھپا لیا۔
I loved this lines "Raat ki Chaadar mein munh chupa liya"